Monday 7 November 2016

میرا چھوٹا بھائی اور ٹیچر محمد سمیع اللہ علوی ۔۔۔۔ 31 اکتوبر سے اس دنیا میں نہیں رہا ۔۔۔۔ مگر ۔۔۔۔ اس کے شاگرد اب اس کا مشن جاری رکھے ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔ ان شااللہ
******************
ہر بہار گل کو ہے دور خزاں آنے کا غم
غنچہ کو گل بننے کا اور گل کو مرجھانے کا غم
پائے عمر نوح انساں یا ہو مرگ نوجواں
اس جہاں فانی میں ہے ہر انساں کو مرجانے کا غم

********************
وہ مجھ سے پانچ سال چھوٹا تھا اور بچپن سے ہی پر اسرار، ماورائی اور مابعدالطبیعاتی شخصیت کا مالک تھا، یہ پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ اس کے بعد اس کا اگلا اقدام کیا ہو گا ۔۔۔۔؟ بات جائز ہوتی یا ناجائز ۔۔۔۔ اگر اس پر ڈٹ جاتا تو ۔۔۔۔ دنیا کی کوئی طاقت اسے ایک سنٹی میٹر بھی آگے پیچھے نہیں کر سکتی تھی ۔۔۔۔ اس وجہ سے جہاں اس نے اپنے شاگردوں کی تعداد میں ستاروں جیسا اضافہ کیا وہاں اس نے فیس بک فرینڈز کی طرح انہے وا دوست نہیں بڑھائے بلکہ اس نے خواہ پیشہ ورانہ طور پر یا کسی اور وجہ سے جو بھی دوست بنائے وہ واقعی اس کے دوست اور مدح خواں تھے ۔۔۔۔ اور اس کی جبلت اور نفسیات کو بھی جانتے تھے ۔۔۔۔ ان میں سے ایک سینٹر انچارج ساجد عباسی ہیں ۔۔۔۔ وہ بتاتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔ وہ ان پر بے حد اعتماد اور اعتبار کیا کرتا تھا اور اس کی نوعیت ایسی تھی کہ ۔۔۔۔ وہ جب اخروٹ اتارتا تو ان کو تحفہ کے طور پر بھی پیش کرتا، یہ دو حصے ہوتے، ایک ہماری اکلوتی ہمشیرہ اور ایک ساجد عباسی کیلئے ۔۔۔۔
محمد سمیع اللہ علوی کی وفات پر کتنے لوگ میرے پاس تعزیت کیلئے آئے، انہوں نے فون پر میرے دکھ درد کو شیئر کیا، مجھے کچھ پتہ نہیں، اس لئے کہ اس محبت کو اعداد و شمار پر تولا نہیں کرتے، ڈیڈ باڈی جب بیروٹ پہنچی تو قبر تقریباً تیارتھی، میرے پڑوسیوں شفقت عباسی، ان کی اہلیہ اور بیٹے صداقت عباسی، زرین عباسی ان کی اہلیہ اور بیٹے عظیم عباسی، حوالدار ذولفقار عباسی، میرے بھتیجے طیب علوی اور میرے کزن منیر علوی اور ان کے اہلخانہ نے تمام انتظامات کر دئے تھے، میں سمیع اللہ علوی کے چاہنے والوں، اس کے شاگردوں، اپنے تمام پڑوسیوں اور عزیزوں سے سپاس تعزیت کرتا ہوں کہ دکھ کی اس گھڑی میں ہمارے ساتھ تمام ترتجہیز و تکفین اور قل تک کے معاملات میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔۔۔۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر دے۔۔۔ آمین
وہ پیشے کے اعتبار سے ایک ٹیچر تھا اور گزشتہ اٹھائیس برس سے علاقے کے نونہالوں میں علم تقسیم کر رہا تھا، اس کے ساتھی ٹیچر بتاتے ہیں کہ ۔۔۔۔ پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کے دوران اپنے افسروں کو بھی خاطر میں نہیں لاتا تھا، بعد میں وہ ان سے ملاقات اور تبادلہ خیال کرتا ۔۔۔۔۔ لوگ تو درخواستیں دے کر دیہاڑی لگانے والے ٹیچرز کے تبادلہ کا مطالبہ کرتے ہیں مگر جب وہ ترمٹھیاں اور بانڈی، لوئر بیروٹ سے ٹرانسفر ہوا تو ۔۔۔۔۔۔ اس کی ٹرانسفر رکوانے کیلئے وفود ایبٹ آباد گئے تھے ۔۔۔۔۔ آج کل اس کے امیڈی ایٹ باس لورہ سے تعلق رکھنے والے ۔۔۔۔ جناب منیب صاحب ۔۔۔۔ تھے، اتنے کڑوے مزاج کے باوجود وہ اس کیلئے نہایت نرم گوشہ رکھتے تھے بلکہ اس کے اخلاص کو بھی سراہتے تھے، وہ شروع میں مانیٹرنگ والوں کو بھی نہیں مانتا تھا نہ ہی اس کے خیال میں پرائمری مدرس گریڈ بارہ سے آگے جا سکتا تھا، اس کے کولیگ نے اسے سمجھایا تب اس کے کاغذات بنے اور وہ اگلے گریڈ میں پروموٹ ہوا، عید کے فوراً بعد اس کی معصومہ ٹینٹ سکول دومیل باسیاں میں کام کے دوران دونوں آنکھیں اندھیر ہو گئیں، گھر پہنچا تو ۔۔۔۔۔ گردوں نے بھی جواب دیدیا، میرا بھانجھا اسامہ بن نصیر اسے بھارہ کہو لایا، ٹیسٹوں میں ڈائیلائیسس تجویز ہوا چنانچہ یہ سلسلہ بھی چل پڑا اور ہفتے میں دو ڈائیلائیسس ہوتے رہے، عمران خان کے دھرنے نے جمعہ کا ڈائیلائیسس نہ ہونے دیا اور پیر کو وہ اپنے خالق حقیقی کے پاس پہنچ گیا، جس روز اس کی روح نے پرواز کی اسی رات بارہ بجے اس کا قومی شناختی کارڈ بھی ایکسپائر ہو گیا، میرے مرحوم بھائی پر ایک روپے کا قرض بھی نہیں تھا ۔۔۔۔ وفات سے پہلے اور بعد ۔۔۔۔ اس کے تمام معاملات اپنے وقت پر خود بخود سرانجام پائے ۔۔۔۔ وہ بھی اس دنیا میں ان فٹ تھا اور بیماری کے دوران شدت درد سے اپنے رب کو اس طرح پکارتا ۔۔۔۔ نہ تو جین دینا ایں نا تو مرے ہوغا چھوڑیا اے ۔۔۔۔ وہ یہ بھی کہا کرتا ۔۔۔۔۔ گھر کے پاس دوسرا گھر ایک سو میل کے فاصلہ پر ہونا چائیے ۔۔۔۔ اس کی پہت اچھی صحت تھی مگر وہ نمک کی طرح گل گیا ۔۔۔۔ وہ سات سال بعد ہماری والدہ مرحومہ کی دائیں جانب ان کے پہلو میں جا کر سو گیا ہے، آخر میں میں اپنے دکھی دل کے ساتھ یہی کہہ سکتا ہوں کہ ۔۔۔۔۔ کلُّ مَنْ عَلیها فَان وَ یبقَی وَجْهُ رَبَّک ذوالجلالِ والاکرامِ ۔
بہنیں اور بیٹیاں انعام خداوندی ہوتی ہیں، اس کی بیماری کے دوران میری اکلوتی بہن اور میرے بھانجھے اسامہ بن نصیر نے میرے بھائی کی جتنی خدمت کی، گاڑی پر اسے ڈائیلائس کے لئے لے جاتا رہا ۔۔۔۔ یقین جانئیے اتنی خدمت لوگ والدین کی بھی نہیں کرتے ۔۔۔۔ بکوٹ کےقاضی خاندان کی بیٹی اور اس کی اہلیہ کے علاوہ اس کے نو عمر بیٹے ذکریا علوی نے جس طرح اپنے معذور اور ضدی شوہر اور والد کی خدمت کی وہ بھی انہی کا حصہ تھی ۔۔۔۔ اللہ تبارک و تعالیٰ دیکھ رہا ہے ۔۔۔۔۔ اور اس کا صلہ وہ انہیں ضرور دیگا ۔۔۔۔ رب کائنات ہم سب کا حامی و ناصر ہو ۔۔۔۔۔ آمین یا رب العالمین

Saturday 14 May 2016

May, 2016

مئی 2016کی پوسٹس
دینیات
4th May
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آَيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَالسَّمِيعُ الْبَصِيرُ
**********************************************
بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب دنیا کے سب سے بڑے انسان ﷺ نے اپنے معبود اور خالق حقیقی سے روبرو ملاقات فرمائی ۔۔۔۔۔۔۔۔
**********************************************
نوری محفل پہ چادر تنی نور کی ۔۔۔۔۔ نور پھیلا ہوا آج کی رات ہے :www.youpak.com/watch?v=Fhb6CJyJhcE
**********************************************
آج ۔۔۔۔۔۔ بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب ۔۔۔۔۔۔۔ مسلمانان عالم کیلئے وہ مبارک رات آئی ہے جس میں اس سے پہلے نہ بعد میں قیامت تک ایسا کو ئی واقعہ رونما ہو گا جس میں خالق کائنات اپنے اس محبوب ﷺ کو لامکاں میں اس مقام پر اپنے روبرو بلائے، بٹھائے اور رازو نیاز کی باتیں کرے ۔۔۔ جہاں جبرائیل امین کے پروں کو بھی خاکستر ہونے کا امکان ہو ۔۔۔ اس لئے کہ پاک ذات نے اپنے بندے ﷺ کو مسجد الحرام سے مسجد الاقصیٰ تک سیر کرائی (سورہ بنی اسرائیل، آیت 01) اس رات کے عالم بالا میں 18 سالہ اور مکان ام ہانیؒ کے گھر میں چند منٹ کے سفر کے حال کے مصتفائی بیان پر لبیک کہنے والے عبدالکعبہ بعد میں عبداللہ ابوبکر صدیق اکبرؓ بن گئے اور سگا چاچا صبح قیامت تک ابو جہل کا خطاب پا گیا۔
*************************
سورہ بنی اسرائیل کی تلاوت کیلئے :http://www.youpak.com/watch?v=TbwarC2ySCs
*************************
ترجمہ اور تفسیر کیلئے:http://www.youpak.com/watch?v=yVzqC5XZSps
************************
آج کی رات کی فضیلت:http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=22442
************************

آج کی رات کے اعمال:http://dailypakistan.com.pk/lahore/16-May-2015/225356
***********************
اس مقدس رات میں ۔۔۔۔۔۔۔۔ جب آپ اپنے رب کے حضور بھیگی ہوئی آنکھوں کے اپنی اور اپنے والدین کی بخشش، اپنی ترقی اور گھر اور مال و کمائی میں برکات کیلئے دعا فرمائیں گے تو اس عاجز اور خطا کار بندہ خدا (محمد عبیداللہ علوی) کو بھی اپنی دعا میں شریک کر لیں ۔۔۔۔۔ کیا پتہ ۔۔۔۔۔۔ آپ میں سے کسی کی دعا سے میں بھی من کی مراد پا جائوں ۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ ؎
تو غنی از ھر دوعالم ۔۔۔ من فقیر
روزِ محشر عذر ھائے من پذیر
گر ۔۔۔۔۔ حسابم را تو بینی ناگزیر
از نگاہِ مصطفےٰ ﷺ پنہاں بگیر
------- ترجمہ --------
تو دوعالم کا غنی ہے ۔۔۔ میں گدا
روزِ محشر ۔۔۔۔ کام اک کیجو مرا
ہاں چھپا کر دیجیو مالک مجھے
مصطفےٰ ﷺکے سامنے نامہ مرا

**************************************
21st May 
  اے اہلیان کوہسار ۔۔۔۔۔۔ زندگی کی ایک اور شب برات مبارک ہو ۔۔۔۔۔۔ میرے کوہسار کی شب براتیں اور ان کا ثقافتی رنگ ۔۔۔۔۔۔ اصل رنگ تو عبادت اور دعائوں میں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔؟
***********************************************
نوری محفل پہ چادر تنی ہے نور پھیلا ہوا آج کی رات ہے:http://www.youpak.com/watch?v=HZEI0D3KZW8
***********************************************
  اتوار اور سوموار کی رات اس زمینی کہکہشاں  سمیت ان گنت کہکشاں کی کائیناتوں کا الٰہیاتی بجٹ پیش ہونے جا رہا ہے جس میں میں اور آپ بھی شامل ہیں ۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔ پتہ نہیں کہ اگلی شب برات کو ہم میں سے کون کون ہوگا اور کس کس کا پتہ زرد ہو کر گر گیا ہو گا ۔۔۔۔۔ ہم تو اسی پر راضی ہیں جو رب کا فیصلہ ہے، ان ہزاروں کائیناتوں میں انسان کی حیثیت ہی کیا ہے ۔۔۔۔ مگر ۔۔۔۔ اسی انسانیت کے سب سے بڑے ابن آدم ﷺ کیلئے تو خالق نے یہ کہکشائیں ، ان میں ہماری کائینات اور اس میں زمین پیدا کی ہے، زمین کے مرکز میں مکۃ المکرمہ کا شہر آباد کیا ہے ؎
نہ اس پر گھاس اگتی ہے نہ اس میں پھول کھلتے ہیں
مگر اس سرزمین کو آسماں بھی جھک بھی ملتے ہیں
***********************************************
ہر خطا پہ شرمسار ہوں میں:http://www.youpak.com/watch?v=c4aRQiHZXT8
***********************************************
زمانے کی نا ہمواریوں نے ہم سے ہماری روایات بھی چھین لی ہیں، آج کل ہم شادی ہو یا غمی، شارٹ کٹ چل رہے ہیں، اسی طرح وہ دینی تہوار بھی ہم سے ہماری دنیاوی نس و نس کی وجہ سے شارٹ لسٹڈ ہو کر رہ گئے ہیں، ہمارے علما کا جو بھی نقطہ نظر ہو مگر میں نے اپنے تابناک مگر مرتے ہوئے تمدن کی حامل وہ شب براتیں بھی دیکھی ہیں جب ہفتوں پہلے شب برات میں فائر انٹرٹینمنٹ کیلئے جنگلوں سے بہترین دہیلیاں لائی جاتی تھیں، پھر ان کے مٹھے بنائے جاتے، ہمارے گھروں میں بڑے کھانوں کا اہتمام ہوتا، نماز مغرب سے پہلے لمبی لمبی دعائیں کی جاتیں، جن میں استغفار ہوتا اور اگلے الہیاتی مالی سال کے دوران رو رو کر خیریت کی دعائیں مانگی جاتیں، اہل خانہ ایک دوسرے کو حیرانی کی نظروں سے دیکھتے ۔۔۔۔۔ جیسے وہ اگلے خدائی سال میں موجود ہوں گے یا نہیں، خوشبو دار کھانے کھائے جاتے اور اپنے چار چوفیر گھروں میں بھی ہدیۃً ان کھانوں کی ایک ایک پلیٹ بیجھی جاتی، وہاں سے بھی سوغاتیں آتیں، اس کے بعد ان دیہلیوں کے مٹھوں، جنہیں ہم مساہدے کہتے تھے، روشن ہو جاتے تھے ۔۔۔۔۔ یہ مقابلہ بھی ہوتا تھا کہ کس گھر میں کتنے مساہدے روشن ہوئے اور ان میں بھی ۔۔۔۔ فلائنگ مساہدوں کی تعداد کتنی تھی ۔۔۔۔۔؟ فلائنگ مساہدے وہ تھے جو کھنوں (گیند) کی شکل میں ہوتے تھے اور ان میں ربڑ کا ستعمال کیا جاتا تھا، تغڑے (صحت مند) نوجوان ڈوغوں میں ایک دوسر کے پیچھے دوڑتے اور باسکٹ بال کی طرح اسے اپنے ساتھی سے چھینتے اور فضا میں اچھال دیتے ۔۔۔۔ یہ سلسلہ گرمیوں میں بارہ بجے رات اور سردیوں میں دس بجے تک چلتا رہتا ۔۔۔۔ میں نے کچھ بزرگ لوگوں سے اس کے جواز یا عدم جواز کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ۔۔۔۔ اس زمانے میں یہاں غیر مسلم بالخصوص کھتری بھی رہتے تھے اور ۔۔۔۔۔ مساہدے روشن کرنے کا مقصد ان پر اپنی عددی برتری کا بھی اظہار تھا ۔۔۔۔ لیکن میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ ۔۔۔۔ سال میں ایک بار اس فائر ایونٹ کا مقصد انٹرنیمنٹ (آتشیں تفریح) بھی تھا ۔۔۔۔ اور یہ اس لئے ممکن تھی کہ ہماری باڑیاں، ڈوغے، لاڑ، ٹہنڈیاں اور کھیتر ابھی بانجھ نہیں ہوئے تھے، اناج، ڈیری، پولٹری اور ایندھن کی تمام تر ضروریات یہی ہمارے زیادہ یا کم زمینیں پورا کر دیتیں تھیں اور ۔۔۔۔۔ شب برات پر ہم انہی کے وسائل سے فائر انٹرٹینمنٹ سے بھی لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔
***********************************************
شب برات کی عبادات اور غیر ضروری خرافات ۔۔۔۔ قرآن و سنت کی روشنی میں:http://www.farooqia.com/ur/lib/1435/08/p12.php
***********************************************
یہ شب برات کا ثقافتی رنگ تھا یا زمانے کی خرافات ۔۔۔۔۔۔۔ اس کے خاتمے میں ہماری تہذیب کا بدلتا رنگ، نئے زمانے کے نئے تقاضے اور مصروفیات اور وسائل کی کمی نے اہم کردار ادا کیا ہے، نئی تعلیم، نئی جابز، نئے پیشے اور روشن خیالی پرانی روایات اور اقدار کو تہس نہس کر رہی ہیں یہاں تک کہ ہماری زبان بھی اب وہ نہیں رہی جو پچاس سال پہلے تھی، آج کل کوہسار کی ہر مسجد شب برات کی مقدس اجتماعی روحانی محفل سے معمور ہوتی ہے، کہیں تلاوت کلام پاک کے مقابلے ہو رہے ہیں، کہیں بارگاہ نبوت میں عقیدت کے نذرانے پیش کئے جا رہے ہیں، کہیں صلاٰۃ التسبیح ادا کی جا رہی ہے اور گھروں میں بھی تلاوت اور نوافل کی ادائیگی کا اہتمام ہو رہا ہے، بجلی کی نعمت اور جدید موبائل نے وعظ و نصیحت کو عام اور دین کو سمجھنا آسان کر دیا ہے، گھروں میں بھی محافل نعت و درود برپا ہو رہی ہیں، جدید ذرائع ابلاغ لوگوں کی سوچ کو وسعت دے رہے ہیں اور وہ تمام خرافات جو ماضی میں ہم دین کے نام پر ادا کر رہے تھے دم توڑ رہی ہیں ۔۔۔۔۔ مگر ۔۔۔۔۔۔ انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔ تقویٰ اور فکری و عملی طہارت ۔۔۔۔۔ جو مسلمان کا زیور ہے ۔۔۔۔ اس سے ہم محروم ہو رہے ہیں ۔۔۔۔۔ اس شب برات پر یہ دعا بھی کیجئے کہ ہم اندر اور باہر سے بھی مسلمان بن جائیں ۔۔۔۔۔۔ یہی تقاضائے اسوہ رسول ﷺ بھی ہے ۔
***********************************************
لوگوں کی زندگی منقطع کرنے کا وقت اس رات میں لکھا جاتا ہے:https://tehreemtariq.wordpress.com/…/%D8%B4%D8%A8%D9%90-%D…/
***********************************************
مسلمانوں میں شب برات کے بارے میں دو نظریات ہیں ۔۔۔ ایک کا کہنا ہے کہ شب برات کسی قرآنی آیت یا حدیث سے ثابت نہیں ہے یہ محض ایک کلچرل فیسٹیول ہے اور شب برات کا فیسٹیول صرف پاک و ہند میں منایا جاتا ہے، باقی عالم اسلام میں نہیں ۔۔۔۔۔ دوسرے مکتب فکر کے مطابق رمضان کے بعد مقدس ترین مہینہ شعبان کا ہے اور اس میں افضل ترین رات شب برات کی ہے جس میں کائینات کی تقدیر لکھی جاتی ہے اور ہر زندہ وجود کی زندگی اور موت کے فیصلے کئے جاتے ہیں ۔۔۔۔ اس سلسلے میں دونوں کا ایک حدیث پر اجماع ہے جو ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے کہ ۔۔۔۔ نصف شعبان کو نبی اکرم ﷺ جنت البقیع میں اللہ کے حکم اور حضرت جبرائیل کی ہمرائی میں دعائے مغفرت کیلئے تشریف لے گئے تھے ۔۔۔۔ دونوں مکاتیب فکر کی سوچ مخلصانہ اور فقہی ہے اور دونوں کا اس سلسلے میں استدلال بھی نہایت ہی فکر انگیز ۔۔۔۔۔ پہلے آپ ہندوستان کے ایک عالم کا نکتہ نظر ملاحظہ فرمائیں:
http://www.youpak.com/watch?v=aW-gpLuFc9I
اب آپ دوسرے مکتب فکر کے خیالات سماعت فرمائیں:
http://www.youpak.com/watch?v=GjXrShbQOwE
***********************************************
آئیے اس شب مبارک کی مقدس ساعتوں میں اپنی، ہم سب کی مغفرت اور کامیابی کیلئے بارگاہ رب العزت میں گڑگڑا کر دعا مانگیں:http://www.youpak.com/watch?v=wHHO76WuL4U

 
شخصیات

آہ ۔۔۔۔۔۔ ظفرالحق شاہ
3rd May
زرداری اور اس کے بعد بلاول کے ہاتھوں کھلواڑ بننے والی بے وفا پاکستان پیپلز پارٹی کے لئے زندگی بھر وفائیں نچھاور کرتے کرتے یو سی بیروٹ کا نسلی امتیازات کو پائوں تلے کچلنے والے مشہدی سادات قبیلہ کے یہ چشم و چراغ اور بیروٹ کے پہلے ایم بی بی ایس ڈاکٹر الیاس شاہ اور میری والدہ مرحومہ کے فرسٹ کزن ۔۔۔۔۔۔۔ سید ظفر الحق شاہ ۔۔۔۔۔۔۔ آخر کار سوموار کے روز حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔۔۔۔۔۔ " إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ " ۔۔۔۔۔۔ وہ ذولفقار علی بھتو سے ایسے ملتے تھے جیسے جگری دوست ۔۔۔۔۔۔ مگر ۔۔۔۔۔۔ یو سی بیروٹ کے اس پی پی پی کے عاشق نے کبھی عہدہ ، انعام اور کسی مال و دولت کی اپنی پارٹی سے کوئی امید وابستہ نہیں کی ۔۔۔۔۔ مگر ۔۔۔۔۔۔ اس کے خالق حقیقی کے پاس پہنچنے کے بعد ۔۔۔۔۔۔ آپ کیلئے یہ انکشاف ۔۔۔۔۔ کہ ۔۔۔۔۔
انہوں نے پارٹی یا حکومت میں کوئی عہدہ نہ ہوتے ہوئے بھی اپنے سرکل بکوٹ اورآبائی یو سی بیروٹ سے اپنے اجداد کا کیا ہوا وعدہ اور وفا نبھائی ۔۔۔۔۔۔ وہ کام جو وفاقی وزیر، وزیر اعلیٰ اور گورنر نہ کر سکے انہوں نے تن تنہا کیا ۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے بینظیر کے دونوں ناکام ادوار میں بیروٹ، بکوٹ، نمبل اور حکمرانوں کی دھرتی پلک ملکوٹ کے بیروزگار سینکڑوں نوجوانوں کو نوکری دلوائی ۔۔۔۔ جس میں میری والدہ مرحومہ کا ایک بتیجھا اور میرا کلاس فیلوجو آٹھ بار میٹرک میں فیل ہو چکا تھا ان کی وجہ سے باروزگار ہوا اور آج کل وہ اسلام آباد ائیر پورٹ پر ڈیوٹی سے روزی روٹی کما رہا ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ وہ میٹرک پاس کر سکا بھی ہے یا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔؟
*************************************
وہ ایک عوامی آدمی تھے اور تمام نسلی تعصبات سے پاک ۔۔۔۔۔ جس میں ۔۔۔۔۔۔ بیروٹ کی ان کی برادری بری طرح گھری ہوئی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ ان کی ایک ہمشیرہ کا انتقال تین ماہ قبل راولپنڈی میں ہوا تھا، وہاں ان سے میری ملاقات ہوئی ۔۔۔۔۔ ہشاش بشاش نظر آ رہے تھے ، ان کی یہ ہمشیرہ باسیاں کے جدون قبیلہ کی بہو تھیں جبکہ ان کے داماد مشتاق شاہ تھے جو تین سال قبل واصل بحق ہو چکے تھے ۔۔۔۔۔۔ ان کی پیدائش ہوتریڑی بیروٹ خورد میں ہوئی تھی، جوانی راولپنڈی میں گزری، گنج منڈی میں اپنی محنت سے تین دوکانیں اور ایک فلیٹ بنایا جو امیر المومنین حضرت ضیا الحق رحمۃ اللہ علیہ کی خلافت میں قرق ہو گیا اور سو کوڑوں کی عملی سزا بھی الگ ملی ۔۔۔۔۔ انہوں نے کیلالہ لوئر باسیاں میں چند کنال اراضی خریدی تھی جہاں وہ اور ان چھوٹے بھائی سہراب شاہ اپنی اپنی فیملیوں کے ہمراہ گزشتہ 25برسوں سے رہ رہے تھے ۔۔۔۔۔۔ ضیائی خلافت کے دوران ان کے ساتھ جو کچھ اچھا برا ہوا اس پران کی اپنی پیپلز پارٹی نے صرف اتنا کہا کہ
میرے نغمے تمہارے لئے ہیں
*************************************
اللہ تبارک و تعالیٰ ان کی خطائیں معاف فرمائے، آخری آرام گاہ کو باغ بہشت بنائے اور سہراب شاہ سمیت ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔۔۔۔۔۔۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین

********************************************** 

11th May
حضرت صاحبزادہ پیر محمد اظہر بکوٹیؒ کو ہم سے بچھڑے ایک سال بیت گیا
************************
آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے
نبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے ۔۔۔۔۔ اقبالؒ
************************
بڑا آدمی وہ نہیں ہوتا جس کے شر سے ڈر کر لوگ اس کا احترام کریں بلکہ عظیم شخص وہ ہے جو بچھڑ جائے تو ۔۔۔۔۔۔ میں ہوں یا آپ ۔۔۔۔۔۔ بیروٹ ہو یا بکوٹ بلکہ دنیا کا کوئی بھی مقام ہو ۔۔۔۔۔۔ وہاں رہنے والا اسے اپنا ذاتی نقصان جانے اور سمجھے ۔۔۔۔۔ بلا کسی جبر و اکراہ کے ۔۔۔۔۔۔ حضرت پیر بکوٹیؒ کو پردہ فرمائے ہوئے ایک صدی ہونے والی ہے اور ہم سب سمجھتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ہمارے تھے ، ہیں اور رہیں گے ۔۔۔۔۔۔ اس لئے کہ انہوں نے لینے کے بجائے ۔۔۔۔ ہمیشہ ڈیلیور کیا ۔۔۔۔۔ کیا ڈیلیور کیا ۔۔۔۔۔۔؟ فیض ربانی، 1857 کے بعد بکھرے اور بے منزل ہجوم کی شیرازہ بندی، مایوس دلوں میں امید کے چراغ جلائے اور ان میں ہمت، لگن اور جذبہ پیدا کیا جینے کا ۔۔۔۔۔ تمام تر زندگی کی رنگینوں کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔ کہ ۔۔۔۔۔۔۔ زندگی پیار کا گیت ہے ، اسے ہر دل کو گانا پڑے گا ۔۔۔۔۔؟
*************************
صاحبزادہ حضرت پیر محمد اظہر بکوٹی کے سیاسی افکار سے راقم الحروف نے کبھی اتفاق نہیں کیا لیکن ان کے دینی اور روحانی خدمات اور فیوض کا کبھی انکار ممکن نہیں، ان کے دادا جیؒ نے جس طرح مایوس دلوں کو جینے کی امید دی اسی طرح انہوں نے اپنے دادا جیؒ کے دینی اور روحانی مشن کو جاری رکھا اور اپنے اور اپنے سارے بھائیوں سمیت پورے خانوادے کو پیر بکوٹیؒ کے مہمانوں کی خدمت کیلئے وقف کئے رکھا ۔۔۔۔۔۔ وہ انہی کا حصہ تھا اور رہے گا ۔۔۔۔۔۔ پیر صاحبؒ کی وفات کے بعد سے اب تک ان کے مریدین تو رو ہی رہے ہیں بلکہ ان کے بقول پیر بکوٹیؒ کے آم کے پیڑ(زیتون کے درخت) بھی روتے نظر آ رہے ہیں۔
************************
حضرت صاحبؒ گفتار کے ہی نہیں بلکہ وہ صاحب قلم بھی تھے، انہوں نے ید بیضا کے نام سے اپنے دادا حضرت پیر بکوٹیؒ کی سوانح حیات بھی لکھی جس سے زیادہ مستند کوئی اور کتاب نہیں ہو سکتی۔ انہوں ایک سچے عاشق رسولﷺ کی حیثیت سے سیرۃ النبی ﷺ پر سیرت خیرالبشرﷺ کے نام سے بھی ایک کتاب مرتب فرمائی، انہوں نے یہ دونوں کتابیں اپنے دستخطوں سے راقم الحروف کو عنایت فرمائی تھیں ۔۔۔۔۔ میری دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ حضرت صاحبزادہ پیر محمد اظہر بکوٹیؒ اور ان کے پورے خانوادے پر اپنی رحمتوں اور برکتوں کا نزول فرمائے، بکوٹ شریف کی درگاہ و خانقاہ عالیہ قادریہ میں توحیدی ترانے سدا بلند ہوتے رہیں اور ان کے توسل سے ہماری جھولیاں بھی اپنی رحمتوں اور برکتوں سے بھر دے ۔۔۔۔۔ آمین یا رب العالمین
************************
تو ہیں ولی سرکار، پا دے خیر فقیراں نوں:http://www.youpak.com/watch?v=WgildR9wmAM
************************
صاحبزادہ پیر محمد اظہر بکوٹی کے بارے میں مزید تفصیلات اس لنک میں ملاحظہ فرمائیں:
http://pirazher.blogspot.com/

************************************

15th May
 مخلص بیروٹوی ۔۔۔۔۔ کی تازہ کتاب ۔۔۔۔۔ دیدہ بینا 
***********************************
پہلے یہ پڑھ لیجئے:http://mbirotvi.blogspot.com/
**********************************
اقبال حسین شاہ سرکل بکوٹ کے John Keets ہیں ۔۔۔۔۔ انگریزی لٹریچر کے علما جانتے ہیں ہیں کہ یہ مغربی شاعر نفرت کو ناپسند اور سراپا محبت نگاہ تھا، اس کے ایک ایک لفظ سے انسانیت کیلئے پیار کے چشمے پھوٹتے نظر آتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ مخلص بیروٹوی بھی اگرچہ لٹریچر کے حوالے سے ایک غریب علاقے سے تعلق رکھتے ہیں مگر جنگل میں اُگنے والے ایک خوشبودار پھول کی طرح باد صر صر کے آتشیں جھونکوں میں بھی جھومتے نظر آتے ہیں اور رہ رہ کر یہ نغمہ الاپتے ہیں ؎
شوق میں شوریدگی کو بھی ہے حاصل وہ مقام
ہو جہاں حیرت زدہ، عقل و خرد کا اہتمام
ابتلا سے زندگی کو سامنا جب تک نہ ہو
عزت و توقیر پائے کس طرح ناز دوام
*********************************
مخلص بیروٹوی کی نئی کتاب ۔۔۔۔ دیدہ بینا ۔۔۔۔ کے دیباچے میں مانسہرہ کے پروفیسر ڈاکٹر ارشاد شاکر اعوان پہلا فقرہ ہی یہ لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔ شاعری صرف خواہش اور شوق سے نہیں، فطری ذوق سے ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔ ان کی شاعری بتمام کمال ملت اسلامیہ کے دکھوں سے متعلق ہے لیکن نا امیدی کی چھائیاں دور دور تک نظر نہیں آتیں ۔۔۔۔۔ اس کا اظہار وہ یوں کرتے ہیں
رحمت حق سے نہ ہو مایوس اے مرد خدا
آ، کہ تجھ پر فاش کر دوں آج اسرار عطا
ہے مسلسل سعی میں مخفی تری مشکل کا حل
قول حق ہےليْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعیٰ
***********
اگر ہمت کی ہمراہی، نہ ہو منظور قسمت کو
تو ہے بے سود، گر لاکھوں برس بھی کوئی سمجھائے
جہاں ہر لفظ پر مخلص کشش اپنائیت کی ہو
عبا ، تحریر کو، ایسی حسیں کوئی تو پہنائے
*******
مخلص بیروٹوی موسم بہار میں جھوم جھوم کر کیسے قلم کو رقص کراتا ہے، ملاحظہ کیجئے ؎
کیا فروغ ندرت گل ہی تقاضائے بہار
یا علاج گریہ بلبل بھی لیلائے بہار
نکہت گل، چہچہاہٹ اور فرش سبزہ زار
کس کرم فرما کا شہرہ، بزم آرائے بہار
********
کوہسار کا کوئی شاعر ایسا نہیں جسے کے پی کے کے چوتھے اور ہزارہ ڈویژن کے پہلے فلک بوس کوہسار کوہ موشپوری کی بلندیوں اورموسم سرما میں اس کی عروسی شان و شوکت نے متاثر نہ کیا ہو، مخلص بیروٹوی نے بھی اس کوہسار کے حسن سرمدی کو کچھ یوں خراج تحسین پیش کیا ہے ؎
اے کو موشپوری، اے شاخ کوہ ہمالہ
ادنی کسی کے فن کا تو بھی ہے حوالہ
اپنی نگاہ کی حد تک منظر یہ ہر طرف ہے
ماہ تمام کا ہو رنگین شوخ ہالہ
چشموں پہ طائروں کی نغمہ سرائی دلکش
شیریں سی کوک یا کہ دلدوز کوئی نالہ
جاتا ہے اب تو مخلص حساس دل کا مالک
لائے گا پھر یہاں تیرا شوق لا محالہ
***********
سید اقبال حسین شاہ مخلص بیروٹوی کی تازہ اور افکار و ادب عالیہ پر مشتمل کتاب ۔۔۔۔ دیدہ بینا ۔۔۔۔ خوبصورت پرنٹنگ، چہار رنگا ٹائیٹل اور اعلی فینسی کاغذ کے ساتھ حمد باری تعالیٰ اور خاتم الانبیاﷺ کے حضورنذرانہ عقیدت سمیت 51نظموں اور208 صفحات پر مشتمل ہے، اس کے ترتیب کار ان کے تینوں صاحبزادے سید خالد رضا شاہ، سید باسط شاہ اور سید احمد رضا ہیں، یہ کتاب مانسہرہ کے تین کتابوں کی دکانوں سے دستیاب ہے تاہم ان فون نمبرز 0345-8582408 (یہی نمبر وارد اورزونگ کے کوڈ پر بھی ڈائل کئے جا سکتے ہیں) پر رابطہ کرکے مبلغ 350 روپے، علاوہ ڈاک خرچ سے اپنے ذاتی پتے پر منگوائی جا سکتی ہے۔
*************************************
مزید تفصیلات اس لنک میں:http://chasmeferda.blogspot.com/
************************************
یہ جو ہلکا ہلکا سرور ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ : http://www.dailymotion.com/…/x2b6k3p_ye-jo-hlka-halka-saror…

 سیاست

1st May
سردار صاحب ۔۔۔۔۔۔ ہمیں سرکل بکوٹ کی ترقی چائیے ۔۔۔۔ فنڈز خواہ انڈیا یا اسرائیل سے ہی کیوں نہ ائیں --------؟
***************************************
یاد کرتا ہے زامانہ ان انسانوں کو:
http://www.youpak.com/watch?v=IXY_aaE4H8A
***************************************
بن اور بنی پہاڑی زبان کے دو الفاظ ہیں جن کے معانی ۔۔۔۔۔۔ چھپڑ، ٹہن اور تالاب کے ہیں، بنی کھیت، کھیتر، ڈوغے، ٹہنڈی اور لاڑ کے آڑ ے کے اوپر اس بند کو کہتے ہیں جس کی موجودگی میں زرعی عہد میں اپریل سے ستمبر تک تاہیں یعنی چاول کی کاشت کی جاتی تھی اور اسے ہوتر کہا جاتا تھا ۔۔۔۔۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔ سرکل بکوٹ صوبہ کے پی کا آخری ہوتر ہے جہاں فنڈز کی نہر پہنچنے سے پہلے ہی خشک ہو جاتی ہے خواہ اسے سابق گورنر اور وزیر اعلیٰ نے ہی کیوں جاری نہ کیا ہو ۔۔۔۔۔۔ تا ہم ۔۔۔۔۔۔ بڑی خوشی کی بات ہے کہ سرکل بکوٹ کے سینئر صحافی اشتیاق احمد عباسی کے اخبار روزنامہ آئینہ جہاں میں شائع ہونے والے آج ایک بڑے اشتہار میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ 4 مئی کو سابق گورنر اور وزیر اعلیٰ کروڑوں روپے کے ایک میگا منصوبہ کا افتتاح اور عظیم الشان جلسہ کر رہے ہیں جس میں اہلیاں کوہسار کو اپنے تمام کام کاج چھوڑ کر اس سیاسی بقا کے پہلے جلسے میں شریک ہوں اور اس کی رونق دوبالہ ہی نہیں سہہ بالا اور چہار بالہ کریں، یہ افتتاح یو سی پلک ملکوٹ کے بنی دروازہ کے مقام پر کیا جائیگا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟
***********************************
اشتہار اس بارے میں خاموش ہے کہ اس منصوبہ پر فنڈز کہاں سے اور کتنے آئے ۔۔۔۔؟ کیونکہ سردار فرید خان ہوں یا ڈاکٹر ازہر ۔۔۔۔۔۔ بارش متاثرین کی مدد کے سوال پر دونوں روتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ اپوزیشن میں ہیں ۔۔۔۔۔ اور اپوزیشن رکن کی حیثیت سے انہیں قومی خزانے سے فنڈز ملنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔۔۔۔ ایسے میں ۔۔۔۔۔ ساری عقل اس جانب متوجہ ہوتی ہے کہ ۔۔۔۔۔۔ یہ فنڈز سردار صاحب نے ذاتی جیب سے دئیے ہوں گے ۔۔۔۔۔ مگر اشتہار کا کیا کیجئے کہ ۔۔۔۔۔ اس میں ۔۔۔۔۔۔۔ رقم کروڑوں کی لکھی ہوئی ہے ۔۔۔۔۔۔ اور سردار صاحب ملک ریاض بھی تو نہیں جو زرداری کے حکم پر آٹھ کروڑ روپے صومالیہ میں بحری قذاقوں کی قید سے پاکستانی یرغمالیوں کو چھڑانے کیلئے تاوان پیش کر دیں ۔۔۔۔۔۔ یا یہ ۔۔۔۔۔۔ گزشتہ سال کی طرح محض ایک اعلان ہے جب انہوں نے یو سی پلک ملکوٹ اور بیروٹ میں تختیوں پر تختیاں لگا کر شو آف پاور کے دوران کیا تھا ۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد تختیاں رہیں نہ اعلان کردہ منصوبے ۔۔۔۔۔۔ اور پیروٹ کا سکول اور بی ایچ یو ویسے ہی کھنڈرات ہیں جیسے وہ گزشتہ 11 سال سے تھے ، اس کے علاوہ گزشتہ سال ہی سردار صاحب کے حمایت یافتہ فرسٹ کزن سردار فرید خان ایک بلڈوزر مشین رات کو ملکوٹ لائے، ، ایوبیہ دروازہ روڈ پر چند گز صفائی کی اور علی الصبح وہ مشین ایبٹ آباد میں کھڑی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ کیوں؟
**************************************
ہمارے بچے لالی پمپ کھانے اور سیاستدان عوام کو لولی پاپ دینے کے پاپ میں مبتلا اور بدنام ہیں، پہاڑی زبان میں سیاستدانوں کے منہ سے لولی پاپ کے پھسلنے والے الفاط کو ۔۔۔۔۔ لارا ۔۔۔۔۔ کہا جاتا ہے اور اردو کے ایک شاعر نے اس کا بھی بڑی وضاحت سے ترجمہ کیا ہے کہ ؎
وہ وعدہ ہی کیا ، جو وفا ہو گیا
-------------
سردار صاحب ۔۔۔۔۔۔۔ آپ کے جذبہ کو اہلیان سرکل بکوٹ سلام کرتے ہیں، واقعی ۔۔۔۔۔۔۔ آپ کے سنہرے دور میں ایک بچہ جوان ہو کر شادی کے بعد کئی ایک بچوں کا باپ بھی بن چکا ہے اور وہ شاید آپ کی طرح نانا اور دادا بھی بھی بن گیا ہو، جس طرح آپ نے سرکل بکوٹ میں دودھ اور شہد کی نہریں بہا کرعوام علاقہ کی خدمت کی ہے ۔۔۔۔۔۔ یہاں ہر علوم فنون کی یونیورستیوں کا جال بچھایا ہے، کارخانے لگائے ہیں، کھیرالا میڈیکل انسٹیٹیوٹ ملکوٹ کی طرح دل، گردے سمیت سرکل بکوٹ بھر میں 50 ہزار بیڈ کے شاندار ہسپتال بنوائے ہیں جہاں 24 گھنٹے سپیشلائزڈ ڈاکٹر بھی آپ کی طرح دکھی انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں، فنی اداروں ، سکولوں اور بی ایچ یوز کی وہ عظیم الشان بلند و بالا عمارات بنائی ہیں جو غرناطہ سپین میں آتھ سو سال پہلے کے ان الحمرا محلات (الحمرا کی تاریخ کے مطالعہ -کیلئے اس لنک کو کلک کیجئے: https://en.wikipedia.org/wiki/Alhambra) کو بھی مات دے رہی ہیں جو آپ کی طرح کے سپین میں اموی خلفا یوسف اول اور محمد پنجم نے بنوائی تھیں (تفصیلات کیلئے یہ ویڈیودیکھئے: http://www.youpak.com/watch?v=hGeSlTI8ZQo) ، البتہ اربوں روپے کا سوار گلی بوئی موٹر وے کا میگا منصوبہ آپ کا وہ کارنامہ ہے جس سے آپ صبح قیامت تک اپنے حلقہ کے لوگوں کے دلوں میں واقعی زندہ جاوید رہیں گے ۔۔۔۔۔۔۔ ملکوٹ بی ایچ یو میں پٹھانوں کے کھوتے باندھنے اور بیروٹ کے سکولوں اور بی ایچ یو کے کھولوں (کھنڈرات) پر لوگ تو باتیں کرتے ہی رہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ آپ کے ترقیاتی کاموں نے سرکل بکوٹ کو واقعی پیرس بنا دیا ہے اور 4 مئی کے بن دروازہ روڈ کے افتتاح کے بعد تو ۔۔۔۔۔۔ عمرانیوں اور جماعتیوں کے منہ تو بند ہو جانیے چاہیں ۔۔۔۔۔۔ کیونکہ یہ ۔۔۔۔۔ آپ کی اگلی سیاسی ساکھ ، سیاسی بقا اور سیاسی زندگی کا سوال ہے ۔۔۔۔۔ کیوں سردار صاحب ۔۔۔۔۔۔۔ میں کوئی کوڑ تے نا آخیا نہ کوئی ڈویا تے نا تولیا ۔۔۔۔۔؟
*************************************
سردار صاحب ۔۔۔۔۔۔ ایک استدعا ہے کہ اتنے کروڑوں کے فنڈز سے چند ہزار سرکل بکوٹ کے بارش متاثرین کی جھولی میں بھی ڈال دیں تا کہ وہ کم از کم تمبو ہی خرید سکیں ۔۔۔۔۔۔۔ اپنے لئے اور آپ کے بیلٹ باکس میں 2018 میں ڈالنے والے ووٹ کیلئے ۔۔۔۔ خدا کرے آپ کا اپنی آبائی یو سی کے اس بنی دروازہ روڈ کی افتتاحی تقریب اگلے سال زمین پر نظر بھی آئے ۔۔۔۔۔ اور اگر سرکل بکوٹ کے دیگر منصوبوں کی طرح یہ بھی نظر نہ ایا تو ۔۔۔۔۔۔ تو آپ بھی 2018 کے بعد سیاسی حیثیت سے نظر نہیں آئیں گے اور آپ کا سنہری دور اقتدار ہر روز ایوبیہ کے پہاڑی چوٹیوں پر سورج کے غروب ہونے کی طرح تاریخ کی کتابوں میں ڈوب جائے گا ۔۔۔۔۔۔ اور ہم صحافی لوگ بھی لکھا کریں گے کہ ۔۔۔۔۔ سردار مہتاب احمد خان بھی سرکل بکوٹ کا ایک لیڈر ہوا کرتے تھے ۔۔۔۔۔ جنہوں نے ۔۔۔۔۔ گورنر اور وزیر اعلیٰ کے پی کے کی حیثیت سے اپنے حلقہ نیابت سرکل بکوٹ کو پیرس بنا دیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
---------------------------------------
قرآن حکیم فرقان حمید کی سورہ آل عمران میں حکم خداوندی ہے: إِن يَمسَسكُم قَرحٌ فَقَد مَسَّ القَومَ قَرحٌ مِثلُهُ ۚ وَتِلكَ الأَيّامُ نُداوِلُها بَينَ النّاسِ وَلِيَعلَمَ اللَّهُ الَّذينَ آمَنوا وَيَتَّخِذَ مِنكُم شُهَداءَ ۗ وَاللَّهُ لا يُحِبُّ الظّالِمينَ﴿ آیه140 ) ۔۔۔۔۔۔ترجمہ ۔۔۔۔۔۔ اگر تمہیں زخم پہنچا ہے تو انہیں بھی ایسا ہی زخم پہنچ چکا ہے، اور ہم یہ دن لوگوں میں باری باری بدلتے رہتے ہیں، اور تا کہ اللہ ایمان والوں کو جان لے اور تم میں سے بعضوں کو شہید کرے، اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔
----------------------------------------
سورہ آل عمران اس لنک میں سماعت فرمائیے:http://www.youpak.com/watch?v=RblKHo2Ibdw
****************************************
سردار صاحب کے بارے میں تفصیلات اس لنک میں:
http://soncb.blogspot.com
 ***************************************************
ایک ہی جگہ، ایک ہی منصوبہ، تختیاں لگانے کی میراتھن ریس پھر شروع ۔۔۔۔۔ اہلیان دروازہ کو کیا ملے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
 
*******************
2nd May
۔۔۔۔ یہ دنیا رہے نہ رہے میرے ہمدم ۔۔۔۔۔ کہانی سیاست کی زندہ رہے گی:http://www.youpak.com/watch?v=P66wmhNX0_A
*******************
قدیم دور میں کوئی نئی خبر ہو یا بادشا، راجے، راجواڑے، دیوان دار (قدیم یونین کونسل کے چیئرمین)، نمبردار یا علاقے کا کوئی سردار ۔۔۔۔۔۔ نیا اعلان کرنا چاہتا ۔۔۔۔۔ تو ۔۔۔۔۔۔ ہر گائوں میں موجود میراثی کسی خاص جگہ ڈھول پیٹنا شروع ہو جاتے تو لوگوں کو پتہ چل جا تا کہ ۔۔۔۔۔۔۔ حضرات ایک ضروری اعلان سنئیے ۔۔۔۔۔۔۔ کا اعلان ہونے والا ہے ۔۔۔۔۔۔ اور یہ اعلان نہ چاہتے ہوئے بھی سننا پڑتا ۔۔۔۔۔ آج زمانہ بدل گیا ہے ۔۔۔۔۔۔ لائوڈ سپیکر، اخبارات، ٹی وی، ریڈیو، اور انٹر نیٹ کا دور ہے ۔۔۔۔۔۔۔ یہاں اشتہاریات (Advertisement) ایک سائنس کے طور پر اپنا کردار ادا کرتی ہے، پروپیگنڈہ خواہ وائٹ ہو یا بلیک ۔۔۔۔۔۔ یہی ایڈورٹائزنگ ایجنسیاں اپنے کلائنٹ کی بریفنگ کے عین مطابق عوام تک اسے پہنچانے کا فریضہ انجام دیتی ہیں ۔۔۔۔۔ ایڈورٹائزمنٹ میں ایک شعبہ اشتہار نگاری کا ہوتا ہے اور اشتہار نگار کو اشتہاری اور صحافتی اصطلاح میں Copy writer کیا جاتا ہے، یہ شخص میڈیا سائنس کا ماسٹر مائنڈ اور انسانی نفسیات کا ماہر ہوتا ہے اور سیاہ کو سفید، کالے کو گورا، شب تاریک کو روشن دن کا اجالا اور صحرا کو شداد کی جنت کا نہ صرف روپ دینے کا ماہر بلکہ وہ ایک قلاش شخص کو بھی ابھارتا ہے کہ وہ ڈبل ڈیکر بوئنگ جہاز اور سپین کے مرغزاروں میں کنگ عبداللہ کے محل اور زرداری کے سرے محل کا مالک بھی بن سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔ اور ہم سب اس کاپی رائٹر کی بات کو کئی ایک زاویوں سے ماننے اور خواہ کسی کی گردن کاٹ کر پیسہ چھیننے اور اپنے تاج محل کی تعبیر کیلئے تل جاتے ہیں، (سرکل بکوٹ میں ماہر اشتہاریات میرے شاگرد کلیم عباسی آف بھن ، بیروٹ خورد ہیں جو اس وقت اسلام آباد کی ایک ملکی سطح کی بڑی ایڈورٹائزنگ ایجنسی میں بطور منیجر خدمات انجام دے رہے ہیں)
*************************************
میں نہیں جانتا کہ سردار مہتاب احمد خان جیسا زیرک، جہاندیدہ اور وفاداروں اور بے وفائوں کے جھرمٹ میں گھرا شخص کیسے خوشامدیوں کی باتوں میں آ کر ہر وہ کام کر گزرتا ہے جو اس کی وقار اور شخصیت کے منافی ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔ مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ اس کا کون سا کاپی رائٹر اس کے مضحکہ خیز اشتہارات اخبارات میں چھپوا رہا ہے اور کیوں؟ اشتہارات میں کون آیا کون آیا ۔۔۔۔۔۔ تو ۔۔۔۔۔۔ اس لوری کے بول ہیں جو تین چار سالہ ضدی بچے کو سلانے کیلئے مائیں گاتی ہیں ۔۔۔۔۔۔ تو کیا سردار مہتاب خان اور ان کی سیاسی و میڈیا ٹیم بھی سرکل بکوٹ کے عوام کو ابھی نومولود سمجھ رہے ہیں جو انہیں 360 ماہ سے نان سٹاپ اپنے سر کی پگ بنائے ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اس اشتہار میں دوسرا نعرہ ۔۔۔۔۔۔ اے جمالو ہے ۔۔۔۔۔ یہ سوچ کس قدر احمقانہ ہے کہ ۔۔۔۔۔۔ سرکل بکوٹ کے عوام ان دیہی سندھیوں کی طرح اتنے سادے ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔ وہ بیچارے اپنی بچیوں کا رشتہ سائیں وڈیرہ کی مرضی کے بغیر بھی دینے سے قاصر ہیں ۔۔۔۔ یہ نعرہ سندھ میں قوم پرست جماعتیں ۔۔۔۔۔ اے جمالو نہیں ۔۔۔۔۔۔ ہو جمالو ۔۔۔۔۔۔ کے الفاظ سے لگاتی ہیں ۔۔۔۔۔ پھر اشتہار میں 4 مئی یعنی پرسوں اس منصوبے کے افتتاح کا دعویٰ کیا گیا ہے جو سردار فرید کا سرے اسے ہے ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔ سرداران ملکوٹ کیوں نہیں سمجھتے کہ یہ ۔۔۔۔۔۔۔ 1970 یا 1985 نہیں ۔۔۔۔۔۔ 2016 ہے ۔۔۔۔۔۔ کھنڈرات نما سکولوں کے باوجود ۔۔۔۔۔۔۔ سرکل بکوٹ کے تقریباً سو فیصد تعلیم یافتہ اور 25 پی ایچ ڈی سکالرز نوجوانوں کے دونوں ہاتھوں کی دس انگلیوں کے نیچے پوری کائینات ہے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈرائیڈ ( ٹچ) موبائل کی صورت میں ان نوجوانوں کی پاکٹ میں موجود ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں کوئی کوڑ تے نا آخیا نہ کوئی ڈویا ژے تولیا؟
************************************
ہم سمجھتے تھے کہ شاید سرکل بکوٹ کے خزاں رسیدہ موسم میں ڈاکٹر ازہر باد نسیم (Sea breeze) کا جھونکا ثابت ہوں گے مگر ان کی پھرتیاں تو باد صرصر (Heat Wave) کی طرح روح اور جسم کو جھلسا رہی ہیں، سرکل بکوٹ میں بارش اور لینڈ سلائیڈنگ کے ہزاروں متاثرین کھلے آسمان تلے بے بسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، کچھ افراد نے سالگراں اسلام آباد میں اراضی خرید کر اپنے اہلخانہ کو چھت فراہمی کی ہمت کی ہے ۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر ازہر کو یہ توفیق بھی نہیں ہوئی کہ وہ ان متاثرین کے گھروں کا دورہ کر سکیں اور ان کو خالی ہاتھ، خالی جیب ہی سہی، سردار فرید کی طرح 30خیموں کے ساتھ دلاسہ ہی دے سکیں ۔۔۔۔۔۔ آج انہوں نے بھی اسی منصوبے کا اسی مقام پر اشتیاق عباسی کے اخبار روزنامہ آئینہ جہاں میں فرنٹ پیج پر اشتہار دیا ہے کہ وہ کل 3مئی کو اسی منصوبے کا افتتاح کریں گے جس کا اعلان اگلے روز سابق گورنر سردار مہتاب خان کی طرف سے کیا گیا تھا، اشتہار کی زبان پیشہ ور کاپی رائٹر کی لکھی ہوئی لگتی ہے جس میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ فنڈز سردار مہتاب نے جیب سے نہیں دئے یا سردار فرید خان کے نہیں ہیں ۔۔۔۔۔؟
**************************************
ان دو سیاسی سانڈوں کی لڑائی میں ہم سرکل بکوٹ کے بیچارے غریب عوام کچلے جا رہے ہیں، گزشتہ سال سورجال میں ڈاکٹر ازہر نے سڑک کا افتتاح کیا اور سرداران ملکوٹ نے مشینوں کی آمد رکوا دی، سڑک بھی ابھی تک تعمیر نہ ہو سکی، کہو شرقی چوریاں میں دونوں نے تختی پر تختی لگائی، مگر وی سی کہو شرقی کے ناظم اسد عباسی کے بولڈ سٹپ کی وجہ سے اس پر کام جاری ہے ۔۔۔۔۔۔ اب دیکھتے ہیں کہ یہ دونوں سیاسی سانڈ اہلیان دروازہ کو صرف نعرے اور شو آف پاور دیں گے یا واقعی سڑک بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کل اور پرسوں کے دن اہم ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ بچ کے رہیں ۔۔۔۔۔ سانڈ صرف ایک دوسرے کو بچھاڑتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ کہیں آپ نہ کچلے جائیں ۔۔۔۔۔۔ کیونکہ حکمران کی کوئی برادری نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔۔ درویش مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر نے اپنے والد اور شہنشاہ ہندوستان شاہجہاں کو ممتاز محل سمیت قلعہ گوالیار میں زندگی بھر کیلئے قید کر دیا تھا ۔۔۔۔۔۔؟ سمجھے یا نہیں۔۔۔۔؟
************************************
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی آخری کتاب قرآن حکیم کی سورۃ حشر کی آیت کریمہ 2 میں واضح اعلان کیا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اے اہل بصیرت ، ان واقعات سے عبرت پکڑو ۔۔۔۔۔ فَاعْتَبِرُوا يَاأُولِي الأَبْصَارِ ....... سورہ حشر سننے کیلئے یہ لنک:http://www.youpak.com/watch?v=sDiPhcXYrXY اور خود تلاوت کیلئے یہ لنک کلک کیجئے:http://quran.alsharia.org/59

  سماجیات 
میری اور آپ کی مائوں کی گود کا قرار اور سکون ۔۔۔۔۔۔۔؟
5th May
***************************************
جب تو پیدا ہوا کتنا مجبور تھا ۔۔۔۔۔۔۔؟ http://www.youpak.com/watch?v=36VxEd0_Gp0
**************************************
ہر انسان کا کوئی نہ کوئی مذہب، دین اور مت (Ism) ضرور ہوتا ہے اور حضرت آدم بن ماں اور باپ کے پیدا ہوئے تھے اور حضرت عیسیٰ بن باپ کے، مسیحی انہیں (نعوذ باللہ) ابن اللہ (Son of God) کہتے ہیں اور ہم امت محمدیہ اس تثلیثی (Trinity) نظریہ کو مسترد کرتے ہوئے انہیں ابن مریم اور روح اللہ کہتے ہیں، اس حوالے سے ہر انسان کی کوئی نہ کوئی قبیلہ اور برادری بھی ہوتی ہے، پاک و ہند میں یہ برادری ازم ایک بہت بڑی قوت ہے اور یہ رشتے ناطے سے لیکر اسمبلیوں کے انتخابات تک بہت اہم کردار ادا کرتی ہے جبکہ آخر میں دیکھا جائے تو ہر انسان کا کوئی نہ کوئی وطن اور اس میں اظہار کیلئے ایک زبان بھی ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہی انسان کی وابستگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔
http://www.youpak.com/watch?v=9-ocMkEjSe4
**************************************
میں اور آپ بڑے ہو کر باپ اور ماں بھی بن چکے ہیں اور ہماری گود میں جب کوئی شیر خوار بچہ مچلتا ہے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس وقت میں حیران ہو جاتا ہوں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے اسے ملنے والا معصوم سا شعور اسے الرٹ کر دیتا ہے کہ یہ گود کس کی ہے ۔۔۔۔ اس پر واری جانے والی ماں کی ۔۔۔۔۔۔ یا پاپ سمیت کسی اور کی ۔۔۔۔۔۔ آپ جتنا چاہیں اسے بہلائیں، اسے قرار نہیں آئے گا ۔۔۔۔۔ کیونکہ ۔۔۔۔۔۔۔ ماں کی گود قرار اور سکون کا منبع ہی نہیں بلکہ ۔۔۔۔۔۔۔ یہاں سے اس نا تواں اور بے بس ابن آدم کو رزق بھی ملتا ہے ۔۔۔۔۔۔ ماں احسان نہیں کرتی بلکہ جنت الفردوس کو اس کے پائوں کے نیچے اپنے لئے رکھنے والا یہی ننھا سا وہ وجود ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ جو کائینات کی سب سے بڑی ہستی بلکہ اولاد کیلئے کعبہ کی حیثیت رکھنے والی ۔۔۔۔۔ حوا کی بیٹی کو ۔۔۔۔۔۔۔۔ ماں ۔۔۔۔۔ کے منصب پر فائز کر دیتا ہے۔
http://www.youpak.com/watch?v=gignKB3f7hc
************************************
جیسے ماں کی گود ننحھے وجود کیلئے ایک پر سکون سی کائنات ہوتی ہے ایسے ہی کسی کا بھی وطن اس کی ماں اور اس کی پر سکون گود ہے ۔۔۔۔۔۔ میں نے بلوچستان کے بے آب و گیا اور کالے سیاہ پہاڑ اور کے پی کے کے ایجنسیوں میں خاک اڑنے والا ویران کوہ ہندوکش بھی دیکھا ہے، کابل کے نزدیک ان فلک بوس مگر خوفناک کوہساروں پر بھی نظر ڈالی ہے جہاں سرنگوں سے گزرتے ہوئے دل اور کلیجہ اچھل کر منہ میں آ جاتا ہے، وہاں بھی اس کے بیٹے اپنے ماں دھرتی میں سکون کی نیند سوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اور آپ دنیا کے خوش قسمت ترین انسان ہیں کہ ہمیں سرکل بکوٹ، گلیات اورکوہ مری جیسا فردوس سے بڑھ کر وطن ملا ہے اور اس میں میرا بیروٹ ۔۔۔۔۔ کیا کہوں کہ ۔۔۔۔۔ ایک میری ماں وہ ہے ۔۔۔۔۔۔ جس کے بطن سے پیدا ہوا اور اس کی گود میں کھیلا ہوں، ایک ماں میری وہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ جس نے اپنی بیٹی میرے جیون کا حصہ بنائی ہے اور ایک ماں وہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ جسے بیروٹ کہتے ہیں ، میں نے چلنا اور جینا سیکھا تو اس کے سینے پر، کودا تو اس کے شانوں پر، علم کا فیڈر پیا تو اسی کی محبت اور شفقت میں، اب اس سے روزگار کے سلسلے میں دور ہوں مگر میری ماں دھرتی بیروٹ میرے شعور میں ہر وقت بستی ہے اور جب میری روح میرے جسد خاکی سے عالم بالا (پتہ نہیں سجین یا علیین میں) کی جانب محو سفر ہو گی تو میری یہی ماں دھرتی (اگر اللہ نے چاہا تو) بازو پھیلا کر صبح قیامت تک مجھے غم دوراں سے دور اپنی گود میں چھپا لے گی۔
http://www.youpak.com/watch?v=1wPfp66Zq0A
**************************************
میرے کچھ روشن خیال دوست احباب ۔۔۔۔۔ میرے اس رویہ سے متفق نہیں ۔۔۔۔۔ دین اسلام کی روشنی میں مجھے لیکچر دیتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔ اسلام میں وطنیت کا کوئی وجود نہیں بلکہ یہ ایک ایسا بت ہے جسے ہم پوجتے ہیں اور اسلامی تعلیمات اس کی نفی کرتی ہیں ۔۔۔۔۔ صاحبو ۔۔۔۔۔ میں نے کب وطنیت پرستی کا دعویٰ کیا ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ جن کا وطن نہیں ہوتا وہ مائٹے پیئیٹے (یتیم) ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ یہ بھی سچ ہے کہ کوئی شخص اس وقت تک اپنا وطن نہیں چھوڑتا جب وہ وطن اس کے لئے روٹی کپڑا اور مکان کی بنیادی ضروریات پوری کرتا رہے، وہ مکہ سے یثرب اس لئے ہجرت پر مجبور ہوتا ہے جب اس ماں کے دیگر بیٹے اس پر اس کی گود کو کانٹوں کی سیج بنا دیتے ہیں، وہ اپنی ماں کی گود سے تشنہ تکمیل حسرتیں لیکر نکلتا ہے اور پھر یثرب کو ہی اپنی ماں تسلیم کرتے ہوئے اسے مدینہ طیبہ میں بدل کر دنیا کے نقشے پر دنیا کے سب سے بڑے انسان کا مسکن بنا دیتا ہے ۔۔۔۔۔ اس کا دیس مکۃ المکرمہ کی حیثیت کم تو نہیں ہوتی مگر مدینۃ منورہ کے زائرین ۔۔۔۔۔ اس کے ایک ایک کنکر، ہوا کے جھونکے اور فضا کا احترام زندگی کا سب سے بڑا حاصل سمجھتے ہیں۔
http://www.youpak.com/watch?v=HiBeDGaM0VI
*************************************
میں خواہ کتنا ہی تھک جائوں، کتنا ہی بیقرار ہوں، میں مریض ہوں اور جس حالت میں ہوں ۔۔۔۔۔ بیروٹ پہنچتا ہوں تو میری تینوں مائیں اپنے ہاتھ پھیلا کر مجھے اپنی محبت بھری گود میں چھپا لیتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ قرار، وہ سکون، وہ لوری اور وہ محبت میرے اس وطن میں مجھے ملتی ہے جن سے سپر پاور کے عشرت کدے بھی محروم ہیں ۔۔۔۔۔ دنیا کی کسی منڈی میں محبت، سکون اور قرار کی جنس موجود ہے ۔۔۔۔۔۔۔؟ یہ صرف اپنی ماں دھرتی کی گود میں ملتی ہے اور وہ بھی بے لوث ۔۔۔۔۔۔ اس بارے میں صرف ساکنان عرش ہی گوٓاہی دے سکتے ہیں جو ہم سے بہت پہلے ۔۔۔۔ بہت پہلے ۔۔۔۔۔ شہر خموشاں کے مکین بن چکے ہیں اور اپنی ماں کی گود میں قیامت تک مدہوشی کی ابدی نیند سو رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ شاد و آباد رہے میرا وطن بیروٹ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
**********************************
اے وطن ہم ہیں تری شمع کے پروانوں میں :http://www.youpak.com

/watch?v=5Y55T7EJO9g
***************************************** 
10th may
آدم خور تو ہر زمانے میں ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
********************************
روشن خیالی (Enlightenment) یہ نہیں کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم اپنی دینی اور سماجی اقدار و روایات (Virtues and values) بھول جائیں ۔۔۔۔۔۔۔ روشن خیالی یہ بھی نہیں کہ ۔۔۔۔۔۔۔ ہم اپنی بہنوں اور بچیوں کی مرضی معلوم کئے بغیر جس کھونٹھے سے چاہیں انہیں باندھ دیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔۔ روشن خیالی یہ بھی نہیں کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ جذباتیت اور بہکاوے میں آ کر کوئی ناپسندیدہ قدم اٹھا لیں تو ۔۔۔۔۔۔ عہد جاہلیت کے عرب معاشرے کی طرح غیرت کے نام پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ڈونگا گلی کے بے غیرت جرگہ ۔۔۔۔۔۔ کے شرمناک فیصلے سے ان کا گلا گھونٹ کر انہیں گاڑی سمیت زندہ جلا دیں ۔۔۔۔۔۔۔ مگر ۔۔۔۔۔ جو چپ رہے گی زبان خنجر ، لہو پکارے گا آستیں کا ۔۔۔۔۔۔۔۔
**********************************
پتہ نہیں کہ میں غلط ہوں یا صحیح ۔۔۔۔۔۔۔ کئی دفعہ سوچ میں ڈوب جاتا ہوں کہ ۔۔۔۔۔۔ واقعی میں اس خطہ زمیں یعنی سرکل بکوٹ سے تعلق رکھتا ہوں ۔۔۔۔۔ جہاں ۔۔۔۔۔ تاریخ کے کسی بھی عہد میں ۔۔۔۔۔۔ بچیوں کو سانجھا سمجھنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی گئی ۔۔۔۔۔۔ یہاں بچی کوئی بھی ہو ۔۔۔۔۔۔ کسی کی بھی ہو ۔۔۔۔۔ کسی بھی عمر کی ہو ۔۔۔۔۔ کبھی بھی اس کی چنی (چادر) چھیننے کی سوچ تو ایک طرف ۔۔۔۔۔۔ کھستی ہوئی چنی بھی اس کے بڑوں اور بھائیوں نے اس کے سر پر سیدھی کر دی، اسے بھائی اور باپ کا پیار دیا گیا ۔۔۔۔۔۔۔ یہ کبھی بھی اچھا نہیں سمجھا گیا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ بچی ہو یا عورت یا بڑی عمر کی خاتون ۔۔۔۔۔۔ جو کام مردوں سے حل نہ ہو سکے عورتوں اور خواتین کو بیچ میں لا کر حل کئے جائیں ۔۔۔۔۔۔ بلکہ ۔۔۔۔۔ میرے دودھ سے بھی پاکیزہ ان پہاڑوں میں بسنے والوں نے ۔۔۔۔۔۔ ہمیشہ ۔۔۔۔۔ ان بچیوں ، عورتوں اور خواتین کو ۔۔۔۔۔۔ عزت ہی عزت ۔۔۔۔۔۔ سمجھا، اور اپنی عزت کی طرح اس عزت کو بھی اپنی سر آنکھوں پر بٹھایا ۔۔۔۔۔۔ اور میری ۔۔۔۔۔ ان بیٹیوں اور بہنوں نے بھی کبھی بھی اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کی عزت کو داغدارکیا نہ ہونے دیا ۔
*********************************
ہم صحافی لوگ ۔۔۔۔۔۔۔۔ چلتے پھرتے ڈھول ہوتے ہیں اور نائیاں سنیا تے گرائیاں سنیا ۔۔۔۔۔۔ والی بات ہوتی ہے، ایسے ہی ہم ۔۔۔۔۔۔۔ بہت سے مقامات پر بہت کچھ دیکھ اور سن کر بھی ۔۔۔۔۔۔ پیٹ ۔۔۔۔۔۔ کرتے رہتے ہیں، اگر آنا جانا ہو، تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔ سرکل بکوٹ اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں کوئی فرق نہیں ۔۔۔۔۔۔ تمام تر وسائل کے نہ ہوتے ہوئے بھی تعلیم، کلچر، تہذیب و تمدن اور بہت سے دیگر معاملات میں بھی ہم اسلام آباد کے ہم پلہ ہیں ۔۔۔۔۔ اس شہر اقتدار میں کوئی کسی کو نہیں جانتا، سب کے سب اپنا اپنا رانجھا راضی رکھنے کے چکر میں ہیں ۔۔۔۔۔ خواہ وہ شکر پڑیاں کا ریڑھی فروش ہو یا پارلیمنٹ ہائوس میں بیٹھا پارلیمینٹیرین اور سینیٹر ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔۔ کبھی ایبٹ آباد جانا ہو تو ۔۔۔۔۔ ہم بیروٹ والے گلیات کی جانب سے ہی جاتے ہیں، پنڈی آنا ہو تو براستہ سنی بنک یا موٹر وے ہی آتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ ہم صحافیوں نے گلیات اور جنوبی تحصیل مری میں ذہنی، فکری، تعلیمی، سیاسی اور اقتصادی پسماندگی کا رقص ابلیس اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ۔۔۔۔۔۔ اس لئے کہ ۔۔۔۔۔ تعلیم نہیں ہو گی تو باقی سب کچھ ہونے کے باوجود ۔۔۔۔۔۔ شعور اور وجدان (Consciousness and conscience) نہیں ہو گا اور یہی قابلیت (susceptibility) ہی تو انسان کو جانور سے ممتاز کرتی ہے۔
*********************************
گلیات کے تھانہ ڈونگا گلی کی حدود میں ایک بچی کی چنی کیوں چھینی گئی ۔۔۔۔۔؟ پھر اس چنی سے اس کا گلا کیوں دبایا گیا ۔۔۔۔۔۔؟ پھر اسی کی اس چنی سے اسے سیٹ کے ساتھ باندھ باندھ کر اسے گاڑی سمیت کیوں آگ لگائی گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ ہم بھی اس کے بارے میں سوچ سکتے ہیں مگر ۔۔۔۔۔۔ یہ قانون اور اس کے رکھوالوں کے سوچنے کی باتیں ہیں ۔۔۔۔۔۔؟ میں صرف اتنا کہوں گا کہ ۔۔۔۔۔۔۔ اگر وحشی لوگوں کا سماج چاہتے ہو تو وہاں کے سکولوں کو آگ لگا دو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صحافیوں کو پھانسی چڑھا دو ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر روز ایک نہ ایک بنت حوا کو زندہ گاڑھ دو ۔۔۔۔۔۔ یقین کرو کہ ۔۔۔۔۔۔ ابلیس رقص کرے گا، اس کے انسانی چیلے الٹی سیدھی چھلانگیں لگائیں گے ۔۔۔۔۔۔۔ جن کے روشن چہرے ہماری آنکھوں کو اپنی شان و شوکت سے خیرہ کرتے ہیں وہ تاریک ذہنوں کے حامل چنگیز بن کر انسانیت کو شرمائیں گے ۔۔۔۔۔۔۔ اور راج کریں گے آدم خور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
*******************************
ذرا سنئیے کہ ۔۔۔۔۔۔۔ عہد حاضر کے مجتہد مولانا طارق جمیل کیا کہتے ہیں:http://www.youpak.com/watch?v=HhzzukL1z40

************************************************** 
12th May
 وہ دردناک، خوفناک اور اذیت ناک لمحہ ۔۔۔۔۔۔۔ جب عرش معلیٰ بھی کانپ گیا ہوگا
****************************
میری پوسٹ پڑھنے سے پہلے سورۃ البروج میں اصحاب الاخدود کے واقعہ کی یہ تفسیرضرور سن لیجئے: http://www.youpak.com/watch?v=-HREn3curwE
****************************
اس پوسٹ اور اس میں جلی ہوئی لڑکی کے فوٹو کی آپ کو تب ہی سمجھ آ سکتی ہے ۔۔۔۔۔ اگر ۔۔۔۔۔۔۔ آپ کے سینے میں ایک درد رکھنے والا دل ہے تو ۔۔۔۔۔ آپ ضرور سوچیںے پر مجبور ہوں گے ۔۔۔۔۔۔۔ کہ ۔۔۔۔۔۔۔ دنیا کے سب سے خوبصورت دیس بلکہ جنت یعنی کڑرال قبیلہ کے گلیات میں ایک معصوم بیٹی کو جب نشہ آور کوئی چیز سنگھائی گئی ہو گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے باوجود کہ ۔۔۔۔۔۔۔ وہ دونوں ہاتھ جوڑے انسانی بھیڑیوں سے زندگی کی بھیک مانگ رہی ہو گی ۔۔۔۔۔۔۔ اس نے بھی جیون کے ۔۔۔۔۔ میری اور آپ کی بچیوں کی طرح آنکھوں میں خوبصورت سپنے سجائے ہوں گے ۔۔۔۔۔۔ پھر اس کو بیہوشی کے عالم میں اٹھا کر گاڑی کی سیٹ کے ساتھ باندھ دیا گیا ہو گا ۔۔۔۔۔۔ پھر اس پر پٹرول یا مٹی کا تیل چھڑک کر ۔۔۔۔۔ ماچس کی ایک تیلی اس کی طرف اچھالی گئی ہو گی ۔۔۔۔۔؟ گاڑی سمیت اس کا گوست پوست کا زندہ وجود ۔۔۔۔۔۔ کس طرح ۔۔۔۔۔۔ جل جل کر ۔۔۔۔۔۔ کس طرح ۔۔۔۔۔۔۔ کوئلے کی شکل میں ڈھل گیا ہو گا ۔۔۔۔۔؟
****************************
سورت البروج میں اصحاب الاخدود کا ذکر کیا گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اصحاب الاخدود کون تھے ۔۔۔۔۔ قرآن حکیم میں اللہ رب العزت فرماتا ہے: وَالسَّمَآءِ ذَاتِ الْبُـرُوْجِ (1)آسمان کی قسم ہے جس میں برج ہیں۔وَالْيَوْمِ الْمَوْعُوْدِ (2)اور اس دن کی جس کا وعدہ کیا گیا ہے۔وَشَاهِدٍ وَّمَشْهُوْدٍ (3)
اور اس دن کی جو حاضر ہوتا ہے اور اس کی جس کے پاس حاضر ہوتے ہیں۔قُتِلَ اَصْحَابُ الْاُخْدُوْدِ (4)خندقوں والے ہلاک ہوئے۔اَلنَّارِ ذَاتِ الْوَقُوْدِ (5)جس میں آگ تھی بہت ایندھن والی۔
اِذْ هُـمْ عَلَيْـهَا قُعُوْدٌ (6)جب کہ وہ اس کے کنارو ں پر بیٹھے ہوئے تھے۔وَهُـمْ عَلٰى مَا يَفْعَلُوْنَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ شُهُوْدٌ (7)اور وہ ایمانداروں سے جو کچھ کر رہے تھے اس کو دیکھ رہے تھے۔
وَمَا نَقَمُوْا مِنْـهُـمْ اِلَّآ اَنْ يُّؤْمِنُـوْا بِاللّـٰهِ الْعَزِيْزِ الْحَـمِيْدِ (8)اور ان سے اسی کا تو بدلہ لے رہے تھے کہ وہ اللہ زبردست خوبیوں والے پر ایمان لائے تھے۔اَلَّذِىْ لَـهٝ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ ۚ وَاللّـٰهُ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ شَهِيْدٌ (9)وہ کہ جس کے قبضہ میں آسمان اور زمین ہیں اور الہ ہر چیز پر شاہد ہے۔ مزید تفصیلات اس لنک میں ملاحظہ فرمائیں:https://ur.wikipedia.org/…/%D8%A7%D8%B5%D8%AD%D8%A7%D8%A8_%…
******************************
اس وقت بھی نہ زمیں پھٹی تھی نہ آسمان ہی گرا تھا ۔۔۔۔۔۔ آج بھی گلیات میں ایسا کچھ نہیں ہوا ۔۔۔۔۔۔ گلیات کی لڑکی پر اس کی اپنی ماں کو بھی ترس نہیں آیا اور اس ماں کی شکل میں ایک سپنی نے ۔۔۔۔۔ ملکوٹ کی تین سال قبل کی اس ۔۔۔۔ سپنی ۔۔۔۔۔ کی طرح ۔۔۔۔۔۔۔ جس نے اپنے دو معصوم بچوں کو زہر دیکر ہلاک کر دیا تھا ۔۔۔۔۔ کیا ایسی عورتیں ماں کہلانے کی مستحق ہیں ۔۔۔۔۔۔ ملکوٹ کے دو معصوم بچوں کی طرح یہ بچی بھی آخرت کو سدھار گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر کیا یہ بچے اور یہ بچی بارگاہ خداوندی میں پہنچ کر ان ظالموں کے ہولناک اور عبرتناک انجام کیلئے روئے نہیں ہونگے ۔۔۔۔۔۔؟
بترس از آہ مظلوماں کہ ہنگام دعا کردن
اجابت از در حق بہر استقبال ۔۔۔۔۔ می آید
اس شعر کو سمجھنے کیلئے اس لنک میں یہ آرٹیکل بھی پڑھ لیں:
http://urdu.siasat.com/…/%D8%AF%D8%B9%D8%A7%D8%A1-%DA%A9%D…/
*******************************
چند قرض ایسے ہیں جن کا بدلہ دنیا میں ہی مل جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔ اور کسی وجہ سے ۔۔۔۔۔ اگر ایسا نہ ہو سکے تو ۔۔۔۔۔ اس ظالم کی سات پشتوں سے قدرت بدلہ لیتی رہتی ہے ۔۔۔۔۔۔ اس کی علامات یہ ہیں:
1۔۔۔۔۔۔۔ ان کی شکل سے نحوست ٹپکتی رہتی ہے اور قدرت ان کے چہرے کی مردانہ وجاہت اور نسوانی حسن چھین لیتی ہے۔
2۔۔۔۔۔۔ اس شخص کی فیملی کے مرد و زن سے غیرت اور حیا بھی چھن جاتی ہے ، کوئی گالی دے یا ان کی خواتین کو بیچ چوراہے گھسیٹے، ان کی پیشانی پر بل نہیں پڑتا۔
3۔۔۔۔۔۔ ان کی بچیاں اور خواتین معمولی معمولی ضروریات کیلئے سڑکوں پر آ جاتی ہیں، ہاتھ پھیلانے لگتی ہیں اور پھر یہ ان کا پیشہ بن جاتا ہے۔
4۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالی پھر ان سے اپنی زمین کھینچ لیتا ہے
اور آخر میں ۔۔۔۔۔۔۔
5۔۔۔۔۔۔ اس ظالم کی اولاد کو نیست و نابود کر دیتا ہے
یہ عذاب اس صورت میں مسلط ہوتے ہیں جب ۔۔۔۔۔۔ ان کا باپ یا دادا ان کبیرہ گناہوں کا مرتکب ہوا ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
***** اس نے کسی کی جان لی ہو ۔۔۔۔ خوا مقتول مسلم ہو یا غیر مسلم
***** اس نے کسی کو بے آبرو کیا ہو ۔۔۔۔۔ خواہ کسی کی بہن بیٹی کسی بھی عمر کی ہو۔
***** اس نے عزت دار شخص کو ذلیل کرنے کی کوشش کی ہو ۔۔۔۔۔۔ خواہ وہ کسی بھی حیثیت میں ہو۔
***** یتیم کا مال کھایا ہو جبکہ اسے امین بنا کر اس یتیم اور اس کے مال کو اس کے حوالے کیا گیا ہو
اور
***** اس نے بھوکے، ننگے، لاچار، مجبور، بے آسرا اور مستحق افراد یا خاندانوں کو دکھا دکھا کر وہ اپنی شاہانہ شان و شوکت پر غرور اور فخر سے اترایا ہو۔
ایسے میں اللہ تبارک تعالیٰ جلال میں آ کر لوح محفوظ میں اس کی تقدیر پر سیاہی پھیر دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اور وہ ذلیل خوار ہو کر دنیا اور انسانی معاشرے سے حرف غلط کی طرح مٹ جایا کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ تو کیا گلیات کی اس معصوم بچی (بچی کی جلی ہوئی لاش کا فوٹو نیچے ہے) اور ملکوٹ کے ان دو بچوں کا خون رائیگاں جائے گا ۔۔۔۔۔ ہر گز نہیں ۔۔۔۔۔ کبھی بھی نہیں ۔۔۔۔۔؟
**********************************
سنئیے تلاوت سورت البروج:http://www.youpak.comhttp://www.youpak.com/watch?v=VHfH2fHYZPU/watch?v=kUT8RNwtOcM
**********************************
یہی واقعہ علامہ سلیمان ندویؒ کی تحقیقی کتاب تاریخ ارض القرآن میں اس لنک پر بھی ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔۔۔: http://ishqeilahi.net/…/quran-e-paak/tareekh-arzul-quran-bk/

**********************************
19th May
زندگی ۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک دھوپ چھائوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسے بھی ہوتا ہے
*************************************
وَلِلّهِ غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَا أَمْرُ السَّاعَةِ إِلاَّ كَلَمْحِ الْبَصَرِ أَوْ هُوَ أَقْرَبُ إِنَّ اللّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ۔۔۔۔ ترجمہ ۔۔۔۔ اور آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتیں تو اللہ ہی کو معلوم ہیں، اور قیامت کا معاملہ تو ایسا ہے جیسا آنکھ کا جھپکنا یا اس سے بھی قریب تر، بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔(سورۃ النحل، آیت 78)
**************************************************
سنئیے سورہ النحل اس لنک میں اردو ترجمہ کے ساتھ:http://www.youpak.com/watch?v=Dm-TAKFaXCo
******
طاہر بھرپور اور کڑیل جوان تھا ۔۔۔۔۔ سعودی رائل نیوی میں سیلر یا ٹیکنیشن تھا ۔۔۔۔۔ نماز فجر کے بعد جہاز کے عرشے پر ہی ورزش کرتا ۔۔۔۔۔ پھر اپنے کمپارٹمنٹ میں ناشتہ اس کا منتظر ہوتا ، وردی اور نیوی کی با وقار کیپ اس کے سر پر ہوتی تو سعودیوں کے بیچ وہ ایک پاکستانی فرض شناس اور ایکٹو اہلکار نظر آتا ۔۔۔۔۔۔ اسے جب بھی موقع ملتا، جدہ سے اپنے پاکستانی دوستوں کے ساتھ مکۃ المکرمہ کے سفرپر روانہ ہو جاتا، حرم شریف میں کعبۃ اللہ کے روبرو ڈوب کر قیام و رکوع اور سجدے کرتا ۔۔۔۔۔ اس زمانے میں ابھی موبائل نہیں آیا تھا ورنہ ۔۔۔۔۔ شاید ۔۔۔۔۔ وہ بھی اپنی کعبۃ اللہ میں موجودگی کی سلفیاں بناتا ۔۔۔۔۔۔ سال بعد اسے ایک ماہ کی چٹھی ملتی تو پہلے وہ جدہ کے بازاروں میں جا کر بہترین کوالٹی کے کپڑے لتے، الیکٹرونک آلات، جیولری، پرفیومز اور دوسرے تحفے خریدتا ۔۔۔۔ پھر وہ اسلام آباد کی جانب روانہ ہو جاتا ۔۔۔۔۔ عزیز اور رشتہ دار اسے ایئرپورٹ پر ویلکم کرتے، عزیز خواتین اسے پٹک پٹک کر کے بوسے دیتیں، دیگر لڑکیاں اس سے دلاسہ لینا اپنا اعزاز سمجھتیں ۔۔۔۔۔ کچھ عزیز اس کے ساتھ ۔۔۔۔۔ میں کھیر ہوئی غچھاں ، میں قروان ہوئی غچھاں کہتے ہوئے بغلگیر ہوتے ۔۔۔۔ بکسے کھلتے ۔۔۔۔۔ تحفے تحائف اپنی اپنی منزل تک پہنچتے ۔۔۔۔ اس کی چھٹی کے یہ 30 دن عزیز و اقارب کی دعوتوں میں پر لگا کر اڑ جاتے ۔۔۔۔۔ اور والدین سمیت عزیزوں کی ایک جنج اسے اسلام آباد ایئر پورٹ پر سی آف کہتی ۔۔۔۔۔ وہ سوچتا ۔۔۔۔۔ میں کتنا خوش بخت ہوں کہ مجھے اتنا پیار مل رہا ہے اور محبتیں نچھاور ہو رہی ہیں ۔۔۔۔۔۔ وہ جدہ ائیر پورٹ پر اترنے تک نان سٹاپ سوچتا کہ ۔۔۔۔۔۔۔ زندگی پیار کا گیت ہے، اسے ہر دل کو گانا پڑے گا.
**********************************
http://www.youpak.com/watch?v=6ekmJ9VSuIQ
**********************************
وقت تو میرے لئے نہ آپ کیلئے رک سکتا ہے، طاہر کا بھی وقت اسی طرح خوشی اور مسرتوں میں گزر رہا تھا ۔۔۔۔۔ والدین اس کیلئے دلہن ڈھونڈ رہے تھے ۔۔۔۔۔ پھر ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ بلکہ کمائو دلہن بھی مل گئی ۔۔۔۔۔ طاہر چھٹی آیا اور پھر دلہا بن کر عزیز و اقارب اور بزرگوں کے ہمراہ ایجاب و قبول کے بعد اپنی جیون ساتھی کو اپنے گھر لآیا ۔۔۔۔ ولیمہ، پھر بتھ فیرہ اور آخر میں نو بیاہتا جوڑے کے اعزاز میں دعوتوں کا لا متناہی سلسلہ، اس بار اس نے مزید 15 دنوں کی چھٹی میں ایکسٹینشن کی فیکس کے ذریعے درخواست بھی بھیجی ۔۔۔۔ اس کے باوجود کئی ایک دعوتوں کو ملتوی کرنا پڑا اور تمام اہل خانہ کے ہمرا دلہن نے بھی اسے اتھروئوں کی برسات میں اسلام آباد سے جدہ روانہ کیا ۔۔۔۔ وہ بھی آبدیدہ آنکھوں سے ڈیپارچر لائونج میں دور تک انہیں دیکھتا رہا ۔۔۔۔ اور اس کا جہاز سب نے سعودی عرب کی طرف پروا کرتے دیکھا ۔۔۔۔۔ اگلے پانچ سال بھی اس نئے جوڑے کے زندگی کے پیار کا گیت گاتے گزرے ۔۔۔۔ دو ننھے سے فرشتے ان کے آنگن میں اتر آئے، دادی، دادا، نانا ، نانی، چچے، ماموں، خالائیں اور پھوپیاں صدقے واری ہوئے جا رہے تھے ۔۔۔ خاندان بھر میں اس جوڑے کی مثال دی جاتی تھی ۔۔۔۔۔؟
*********************************
زندگی ۔۔۔۔ اک پیار کا نغمہ ہے:http://www.youpak.com/watch?v=ST_WC13rNJo
**********************************
مارچ 1975 کی ایک صبح تھی، اذان فجر کے بعد ابھی لوگ نماز کی تیاری کر رہے تھے،کہ طاہر کے گھر سے ایک تہاڑا لٹی (شور شرابہ) اور اس کے ساتھ فائرنگ کی آوازیں بھی آئیں، طاہر کے گھر سے میرا گھر کافی اوپر ہے، دوسروں کے ساتھ میں بھی آڑے بنے ٹاپتا ہوا اس کے گھر پہنچا، چار پائی پر ایک لہولہان نوجوان پڑا تھا اور اس کی والدہ تہاڑا لٹی کر رہی تھی، یہ میرا کلاس فیلو اخلاق عباسی تھا، اس کی دنیا زندگی بھر کیلئے اندھیر ہو چکی تھی، فائرنگ کے تبادلے میں طاہر کا یہ پڑوسی دونوں آنکھوں سے محروم ہو چکا تھا ۔۔۔۔۔۔ بیروٹ میں دو مائیں اپنے بیٹوں کیلئے بہت روئی ہیں، ایک میرے پڑوسی حوالدار ۔۔۔۔۔ کیلئے، جب وہ 1971میں مشرقی پاکستان میں گرفتار ہو کر بھارت کی قید میں تھے ۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔ دوسری اسی اخلاق عباسی کی بووو ۔۔۔۔۔ جب وہ پاکستان بھر میں اپنے بیٹے کی زندگی کے اندھیرے دور کرنے میں کامیاب نہ ہو سکیں ۔۔۔۔۔۔ میں اور میرا یہ کلاس فیلو اخلاق عباسی گورنمنٹ ہائی سکول بیروٹ میں ساتویں جماعت کے طالب علم تھے، میں اپنے چچا محمد حنیف علوی کے ساتھ جب بھی ہوترول جاتا تو یہ مجھے لیکر ہوترول کی پس (لینڈ سلائیڈ) کے اوپر تک لے جاتا، سنتھے کا ایک مانژا ((Bamboo) بناتا، میں اس کے پیچھے بیٹھتا اور ہم اس پس میں لڑھکتے ہوئے نیچے تک آتے، گویا یہ ہمارا موٹر سائیکل ہوتا اور ہم اسے انجوائے کرتے۔۔۔۔۔ اخلاق عباسی متوسط طالب علم تھا مگر بہت محنتی ۔۔۔۔ ہر روز کا ہوم ورک اس کا مکمل ہو جاتا، میں اور وہ انگریزی کا جو کام نہ کر سکتے اپنے مشترکہ پڑوسی طالب علم اخلاص عباسی کے منت ترلے کر کے کروا لیتے۔۔۔۔۔ کیونکہ ہمیں اپنے معزز اور نہایت قابل احترام ٹیچرز فرمان صاحب مرحوم اور راجہ حیدر زمان صاحب سے بہت ڈر لگتا تھا، وہ ہوم ورک کے معاملہ میں سخت گیر تھے اور ان کی ڈکشنری میں کمپرومائز یا آج کا کام کل کرنے کا لفظ ہی نہیں تھا ۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ فرمان صاحب مرحوم کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔۔۔۔۔ آمین۔
**************************
اب زندگی طاہر کیلئے ۔۔۔۔۔۔ جیون ہے اگر زہر تو پینا ہی پڑے گا:http://www.youpak.com/watch?v=RjYhUk6M0iM
**************************
نوجوان طاہر اپنے جہاز پر صبح نماز کیلئے اٹھنے لگا تو ۔۔۔۔ اسے چکر آ گیا اور گر پڑا ۔۔۔۔ رومیٹس نے فوری طور پر اسے جہاز میں ہی فرسٹ ایڈ دینے کی کوشش کی مگر اب وہ بیہوش ہو چکا تھا ۔۔۔۔ جدہ کے بڑے ہسپتال میں شفٹ کیا گیا، ایکسرے، ٹیسٹ اور دیگر تشخیصی آلات کا استعمال بھی کیا گیا مگر بیماری تھی کہ پکڑائی نہیں دے رہی تھی ۔۔۔۔ امریکی ڈاکٹروں نے آ کر آخر کار اس کا مرض تشخیص کیا ۔۔۔۔ یہ نروس بریک ڈائون تھا جسے ریکور کرنے کیلئے برسوں اور کروڑوں روپے درکار تھے ۔۔۔۔ بڑا رسکی کام تھا ۔۔۔۔ وہ ہوش میں تو آ گیا تھا مگر اس کی میموری سمیت دماغ جواب دے چکا تھا ۔۔۔۔ نیوی کا میڈیکل بورڈ بیٹھا اور ۔۔۔۔ طاہر کو رائل سعودی نیوی کی نوکری سے تمام مراعات اور واجبات سمیت سبکدوش کر دیا گیا ۔۔۔۔ اسے اپنے گھر تک پہنچانے کی سہولت بھی دی گئی ۔۔۔۔ چند ماہ بعد تبدیلی آب و ہوا کی وجہ سے وہ چلنے پھرنے کے قابل ہو گیا ۔۔۔۔ تھوڑا اور توانا ہوا تو وہ کپڑوں سے بے نیاز ہو گیا ۔۔۔۔۔ اس وقت سے لیکر وہ لمحہ موجود تک ۔۔۔۔ موسمی سختیوں اور گزرتے وقت سے بے نیاز ایک کمبل اوڑھے اپنے گھر سے تھوڑا اوپر اور بیروٹ کی ڈھوک ڈھیری کے نیچے ایک ڈوغے میں کئی برسوں سے بیٹھا ہوا ہے ۔۔۔۔ خاموش ہے ۔۔۔۔ کہیں بھاگنے کی کوشش نہیں کر رہا ۔۔۔۔ اس کا گھر ٹوٹ چکا ہے ۔۔۔۔۔۔ اس کے بچے کراچی ہیں اور وہ بھی جوان ہیں ۔۔۔۔۔ اس ڈوغے کے شمالی اینڈ پر ٹہنڈی کی جامع مسجد ہے ۔۔۔۔ جہاں جمعۃ المبارک سمیت پانچ نمازیں با جماعت پڑھی جاتی ہیں ۔۔۔۔ گزشتہ 36 برسوں سے آنکھوں سے محروم میرا کلاس فیلو اخلاق عباسی نہ صرف اس مسجد کا موذن ہے بلکہ ۔۔۔۔۔ روزانہ پانچوں وقت کپڑوں، موسمی سختیوں اور وقت سے بے نیاز برسوں سے کمبل اوڑھے اور اوپن ایئر میں بیٹھے اسی طاہر کے پاس سے گزرتا ہے ۔۔۔۔۔ دونوں پڑوسیوں کے لب پر کوئی شکوہ شکایت نہیں ۔۔۔۔۔۔ دونوں پڑوسی راضی بہ رضا ہیں ۔۔۔۔ اخلاق عباسی کے والدین بیٹے کی آنکھوں سے محرومی کا داغ دل پر لئے جا چکے ہیں ۔۔۔۔ جبکہ ۔۔۔۔۔ طاہر کے والدین پارا خان اور ان کی اہلیہ ۔۔۔۔ اپنے جوان بیٹے کی یہ حالت دیکھ دیکھ کر روز مرتے اور روز جیتے ہیں ۔۔۔۔
************************************
اللہ تعالیٰ سورہ النحل کی ہی آیت کرہمہ 76 میں فرماتا ہے ۔۔۔۔ وَضَرَبَ اللّـٰهُ مَثَلًا رَّجُلَيْنِ اَحَدُهُمَآ اَبْكَمُ لَا يَقْدِرُ عَلٰى شَىْءٍ وَّهُوَ كَلٌّ عَلٰى مَوْلَاهُۙ اَيْنَمَا يُوَجِّهْهُّ لَا يَاْتِ بِخَيْـرٍ ۖ هَلْ يَسْتَوِىْ هُوَ وَمَنْ يَّاْمُرُ بِالْعَدْلِ ۙ وَهُوَ عَلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْـمٍ (76) ترجم ۔۔۔۔۔ اور اللہ ایک اور مثال دو آدمیوں کی بیان فرماتا ہے کہ ایک ان میں سے گونگا ہے کچھ بھی نہیں کر سکتا اور اپنے آقا پر ایک بوجھ ہے، جہاں کہیں اسے بھیجے اس سے کوئی خوبی کی بات بن نہ آئے، کیا یہ اور وہ برابر ہے جو لوگوں کو انصاف کا حکم دیتا ہے، اور وہ خود بھی سیدھے راستے پر قائم ہے۔ہ 

تاریخ  
March 29
تاریخ سرکل بکوٹ کا ایک سنہرا باب .........حاجی عبدالکریم خان آف باسیاں
(فوٹو مستحسن عباسی نے ارسال کئے ہیں، ایک ان کا پاسپورٹ ہے)
*****************************
یاد کرتا ہے زمانہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان انسانوں کو
روک لیتے ہیں جو بڑھتے ہوئے طوفانوں کو
http://www.youpak.com/watch?v=m5qRHtHrgsY
****************************
قیام پاکستان سے پہلے کے اصل مسلم لیگی اور تحریک آزادی پاکستان کے مقامی ہیرو حاجی عبدالکریم خان کا تعلق سہریاں باسیاں سے تھا، سابق جج اور کچہری راولپنڈی کے سینئر وکیل شعیب عباسی اور کچہری ایبٹ آباد کے وکیل سجاد عباسی ان کے پوتے ہیں، انہوں نے 1950 میں حج کیا تھا، قیام پاکستان کے وقت کوہالہ ڈاک بنگلہ کا انتظام انہی کے پاس تھا، قائد اعظم کے دورہ مری کے دوران کوہالہ پل پر انہوں نے نہ صرف قائد اعظم کو گلدستہ پیش کیا بلکہ کوہالہ کے ڈاک بنگلہ میں ان کی میزبانی بھی کی،مولاچھ میں ستونوں والی موجودہ دکانیں 1947 میں ان کا ہوٹل تھا، اسی ہوٹل میں اسی سال ایک شخص ریٹائرڈ حوالدار عبدالقیوم اپنی ڈانگری پہنے ہوئے آیا، اور ان سے ان کے ساتھ ہونے والی ڈوگروں کی زیادتی بارے مدد طلب کی، حاجی صاحب نے اس کی بات سن کر اسے ایک وفد کی صورت میں روات میں سردار نور خان اور سردار کالا خان سے ملنے کی تاریخ دی، مقررہ تاریخ پر قیوم خان سمیت یہ وفد سرداران روات سے ملا اور انہوں نے اس وفد کو مسلم لیگ (پاکستان بنانے والی) کے صوبائی صدر خان عبدالقیوم خان کو ریفر کیا، خان صاحب نے اس وفد کی از حد پذیرائی کی اور انہیں ایک درجن بندوقیں اور کارتوس ری فل کرنے کی مشین بھی دی، باسیاں سے حاجی عبدالکریم خان اور سردار یعقوب خان نے کوہسار کے پہلے شاعر مولانا یعقوب علوی بیروٹوی کے جہادی ترانوں کی گونج میں دیگر مجاہدین کے ہمراہ دریائے جہلم عبور کر کے پہلے ساہلیاں تھانے پر قبضہ کیا اور پیش قدمی کرتے ہوئے بارہ مولا تک پہنچ گئے۔۔۔۔۔۔ ان کے ہوٹل میں آنے والا جولی چیڑھ کا برٹش آرمی کا ریٹائرڈ حوالدار بعد میں مجاہد اول سردارعبدالقیوم خان کہلایا ۔۔۔۔۔۔ ان کی دعوت پر خان عبدالقیوم خان نے کوہالہ کا دورہ کیا اور پاکستان کے حق میں ریفرنڈم کی راہ ہموار کی۔۔۔۔۔۔۔ وہ بوئی کے کانگریسی رکن قانون ساز اسمبلی سرحد سردار حسن علی خان کے قریبی دوست بھی تھے مگر 1951 کے پاکستان کے پہلے الیکشن میں ڈنکے کی چوٹ پر سرکل بکوٹ کے پہلے MLA حضرت پیر حقیق اللہ بکوٹیؒ کا ساتھ دیا، ان کی وفات اسی ماہ مارچ 1961 میں ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آسمان تیری لحد پہ ۔۔۔۔ شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
*******************************
مزید تفصیلات اس لنک میں ملاحظہ فرمائیں: http://kohsarcb.blogspot.com
*********************************
8th May 
باسیاں یو سی بیروٹ کے
شعلہ نوا شاعر اور جید عالم دین
حضرت مولانا قاری سعیدالرحمٰن جدوں سپرد خاک
  **********************************
مولانا سعیدالرحمٰن جدون کو آج اتوار کو دن گیارہ بجے دوسری نماز جنازہ کے بعد اپنی والدہ کے پہلو میں ہزاروں افراد کی موجودگی شپرد خاک کر دیا گیا ہے، ان کا گزشتہ روز کورال راولپنڈی میں طویل علالت کے بعد انتقال ہو گیا تھا اور بعد نماز عصر ان کی وہاں پر ہی پہلی نماز جنازہ ادا کی گئی تھی بعد ازاں ان کی وصیت کے مطابق انہیں ایمبولینس میں رات دس بجے باسیاں منتقل کیا گیا، ان کے دینی مشن کے وارث قاری تنزیل الرحمٰن جدون کا کہنا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔ مولانا سعید کی زندگی کے آخری پچیس منٹ چھ کلمے اور صفت ایمان کی تلاوت میں گزرے اور ایک جانب ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگے، ہلکی ہلکی مسکان ان کے لبوں پر نمودار ہوئی اور اس کے بعد ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی گویاس وہ کہہ رہے ہوں ؎
سرود رفتہ باز آید کہ ناید؟
نسیمے از حجاز آید کہ ناید؟
****************************************
اللہ تعالیٰ مولانا کو غریق رحمت فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا کرے ۔۔۔۔۔۔۔ آمین ۔۔۔۔۔۔۔۔ یا رب العالمین: آئیے ان کی مغفرت کیلئے دعا کریں:مزید تفصیلات درج ذیل آرٹیکل میں ملاحظہ فرمائیں

http://molanasaeed.blogspot.com/
*************************************************  
13th May
مفتی عتیق عباسی صاحب، خلیق عباسی صاحب ۔۔۔۔۔ صبر کیجئے ۔۔۔۔ اس کے ہاں دیر ضرور ہے اندھیر نہیں ۔۔۔۔۔؟ *********************************
اولاد کے والدین پر حقوق ۔۔۔۔ علامہ فیض سید کا لیکچر ۔۔۔۔۔ مقتولہ بچی سے رب تعالیٰ پوچھے گا ۔۔۔۔۔۔۔ تجھے کس گناہ میں قتل کیا گیا؟ اس لنک میں ملاحظہ فرمائیں:http://www.youpak.com/watch?v=QIlIR6tiwbc
*********************************
مجھے بھی اتنا ہی دکھ ہے جتنا میرے پڑوسی اور بھائی مفتی عتیق عباسی اور خلیق عباسی کو ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے اپنے دادا کبیر خان اور اپنے والد مرحوم و مغفور کی قبروں کے ساتھ ایک اور قبر کا اضافہ اتھروئوں کی برسات میں کیا ۔۔۔۔۔۔ یہ قبر ان کی ہمشیرہ کی تھی جو ظلم سہتے سہتے آخر ہار گئی ۔۔۔۔۔۔ صبح بچوں کو سکول بھیجا ۔۔۔۔۔۔ اور خود اپنے خالق حقیقی کے پاس پہنچ گئی ۔۔۔۔۔۔۔ انبیا کے وارث میں اپنے بھائیوں مفتی عتیق عباسی اور خلیق عباسی اور ان کہ جان سے عزیز بہنا کے صبر کو شاباش پیش کرتا ہوں کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ دولت، اثر و رسوخ اور تمام تر قاہرانہ وسائل کے باوجود بہنا کے سسر مسکین کے تمام تر مظالم اور زیادتیوں کے باوجود خاموش اس لئے رہے کہ ۔۔۔۔۔۔ ان کی بہن کا گھر آباد رہے ، ان کے معصوم بھانجے بھانجیاں گھریلو برباد سکون و قرار سے نفسیاتی مریض نہ بن جائیں، ہمیشہ ایک ہمدرد اور ساجن کے طور پر بہن اور اس کے شوہر کی دلجوئی کرتے رہے ۔۔۔۔۔ اور سوچتے رہے کہ ۔۔۔۔۔۔ شاید اس
سسر کو آدمیت یا انسانی اقدار اور دوسروں کے جینے کے حق کا شعور آ ہی جائے ۔۔۔۔۔۔۔ مگر ۔۔۔۔۔۔ وہ بیچاری ظلم سہتے سہتے آخرش ہار گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔ بنت حوا تھی ناں ۔۔۔۔۔۔۔ ایک طاقتور مگر شرافت کے پیکر خاندان کی شریف، با حیا اور با وقار بیٹی ۔۔۔۔۔۔۔ وہ اپنے شریف ترین اور دیندار بھائیوں مفتی عتیق عباسی اور خلیق عباسی کو ایک بوڑھے کے سامنے نہیں لانا چاہتی تھی کیونکہ وہ اس کے خدائے مجاز محمد امین عباسی کا بھی تو قبلہ و کعبہ اور والد تھا ۔۔۔۔۔ مگر کب تلک ۔۔۔۔۔۔۔ اس نے جان دیتے ہوئے ہم سب کو پیغام دیا ہے کہ ۔۔۔۔۔ شریف خاندانوں کی با حیا اور غیرت مند بیٹیاں ۔۔۔۔۔ طلم سہہ سہہ کر ۔۔۔۔۔۔۔ وہ اپنے ماں باپ اور خاندان کی عزت پر جان دے دیا کرتی ہیں ۔۔۔۔۔۔ ان کا سر نہیں جھکایا کرتیں ۔۔۔۔۔۔ میرے پڑوسی کبیر خان کی پوتی بھی انہی بیٹیوں میں سے ایک تھی ۔۔۔۔۔ میرا رب ضرور انصاف کرے گا اور اس کے عذاب الیم سے نہیں بچ سکتا ۔۔۔۔۔ اللہ تبارک و تعالی میرے پڑوسی بھائیوں مفتی عتیق اور خلیق عباسی، ان کی والدہ محترمہ اور دیگر لواحقین کو صبر کی توفیق دے اور یہ سانحہ جانکاہ برداشت کرنے کا حوصلہ عطا فرمائے ۔۔۔۔۔۔ آمین یا رب العالمیں
************************************
میرے محلہ کو ویلیج کونسل کہو شرقی کے آخری شمالی اینڈ پر ٹنگان اور چوٹے ناں گنڈ کہتے ہیں، یہاں میرے سمیت علوی اعوانوں کے ٹوٹل سات گھر ہیں، ہم لوگ گزشتہ صدی کے اوائل میں ناڑوٹہ سینٹرل بیروٹ سے یہاں آ کر آباد ہوئے تھے، ہمارے دادوں میں جو یہاں آ کر آباد ہوئے ان میں دارلعلوم دیوبند کے فارغ التحصیل سرکل بکوٹ کے پہلے عالم دین اور حضرت پیر بکوٹیؒ کے برادر نسبتی ہونے کے باوجود نماز جمعہ کے معاملہ پر ان کے سب سے بڑے مخالف حضرت علامہ مولانا میاں محمد دفتر علوی تھے، دوسرے میرے دادا حضرت مولانا میاں میر جی علویؒ تھے جنہوں نے یہاں پہلے مکانات تعمیر کئے، ہمارے پڑوسی اکبر خان تھے جو اہلیان چھجہ کے داماد تھے، ان کے دوسرے بھائیوں میں محمد دین خان، گلفام عباسی کے والد (نام بھول رہا ہوں)، عبدالخالق مرحوم کے والد (ان کا حقیقی نام نہیں یاد آ رہا) اور مفتی عتیق عباسی کے دادا کبیر خان تھے، اکبر خان مرحوم کے آگے چار بیٹے تھے جن میں سکندر خان مرحوم ساکن پلائی اولا، لوئر بیروٹ، زیر تزکرہ مسکین، مصطفیٰ خان مرحوم اور زرین خان شامل ہیں، چند سال پہلے میرے بھائی مفتی عتیق عباسی کے والد (نام بھول گیا ہوں) سے ان کی بیٹی پر اسی مسکین نے اپنے بیٹے امین عباسی کیلئے رشتہ مانگا، (محمد امین عباسی ایک نہایت نفیس اور شریف لڑکا ہے، اسے اپنے اس باپ کی کوئی ایس کیس یا مناسبت ہی نہیں اور اس کا سب سے چھوٹا بھائی بھی 2008 میں اپنے باپ کی بدسلوکی کی وجہ سے خود سوزی کر کے اپنے گھر کے سامنے ابدی نیند سو رہا ہے) دونوں طرف سے باہمی رضا مندی سے رخصتی کی تاریخ طے ہوئی اور مفتی عتیق عباسی کی ہمشیرہ کی ڈولی مسکین کے بیٹے امین عباسی کے آنگن میں اتر گئی ۔۔۔۔۔۔ وقت پر لگا کر اڑتا رہا، امین عباسی بچے بچیوں کے باپ، وہ بہادر لڑکی ماں اور مفتی عتیق عباسی اور خلیق عباسی ماموں بنتے گئے ۔۔۔۔۔۔ پھر اس نے تنکا تنکا چن کر اپنا گھر بنایا ۔۔۔۔۔۔ ایک روز اس کے سسر مسکین نے اس کا یہ گھر روند دیا، توڑ پھوڑ کی اور اس ہنستے بستے گھر کے مکینوں کو بے گھر کر دیا، ساتھ ہی ساتھ ۔۔۔۔۔ ساس اور بہو اپنے بھائیوں گلفام عباسی کے پاس آ گئیں ۔۔۔۔۔ تھوڑے عرصے بعد ساس کا انتقال ہو گیا ۔۔۔۔۔ سسر نے کئی بار اسی مرحومہ بچی کے بچے اور اپنے حقیقی پوتے بھی اغوا کئے ۔۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔۔ انہیں پڑوس میں میرے گھر پر چھوڑ گیا ۔۔۔۔۔۔۔ پھر وہ (سرکل بکوٹ سے پی ٹی آئی کے لیڈر راجہ مبین خان کے خسر نمبردار نذر خان سے خریدی گئی اراضی پر) اپنے گھر تنہا ہو گیا ۔۔۔۔۔ یہ بچی گھر ہوتے ہوئے مہاجرانہ زندگی سے تنگ آ گئی ۔۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔۔ پھر وہ انصاف کیلئے اپنے خالق حقیقی کے پاس ہمیشہ ہمیشہ کیلئے پہنچ گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
**************************************
کل مجھے کچھ دوستوں نے فون کر کے کہا کہ تم کتنے بے حس ہو ۔۔۔۔۔۔ بنگلہ دیش میں مولانا نظامی کی پھانسی پر تم نے کچھ نہیں لکھا ۔۔۔۔۔ تو میرے بھائیو ۔۔۔۔۔ جب میرے گھر بیروٹ میں ہی میرے پڑوس میں ظالم اور سفاک سسر اپنی بہو (جو بیٹی ہی ہوتی ہے) سے جینے کی امنگ چھین لے اور اسے مرنے پر مجبور کر دے ، میرے گلیات میں میری ایک بیٹی کو زندہ جلا دیا جائے تو کیا بنگلہ دیش کے بارے میں کچھ لکھا جا سکتا ہے ۔۔۔۔۔ یہ مسکین ۔۔۔۔۔۔ کبھی بھی اہلخانہ اور پڑوسیوں کے حق میں اچھا نہیں رہا، اپنے پڑوسی ڈاکٹر مسعود علوی مرحوم کے ساتھ اس کے ہمیشہ تعلقات کشیدہ رہے، اس کی بد سلوکی پر میرے والد حضرت مولانا عبداللہ علوی مرحوم نے اس کیخلاف یونین کونسل بیروٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تو ااس سے اس وقت کے چیئرمین یو سی بیروٹ حاجی اعظم خان مرحوم نے میرے والد کے جوتوں پر اس کی ناک رگڑائی ۔۔۔۔ اور واپسی پر ۔۔۔۔۔۔ میرے والد باسیاں کے مقام پر 17اگست 1984 میں سوزوکی حادثہ میں جاں بحق ہو گئے ۔۔۔۔۔ خدا رحم کند ایں عاشقان پاک طینت را
*************************************
زندگی شریف انسانوں کے ہر لمحہ اور ہر لحظہ امتحان لیتی رہتی ہے، ٹنگان، کہو شرقی کا فقیرال ڈھونڈ عباسی قبیلہ بھی اس وقت شدید دکھ اور کرب کے علاوہ امتحان سے گزر رہا ہے ۔۔۔۔۔۔ اب یہ حق سچ کا امتحان ہے ۔۔۔۔۔ عتیق عباسی کی ہمشیرہ لاوارث نہیں تھی اور نہ اس نے والدین کی دہلیز ہی عبور کی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھ سمیت ہم سب کی ہمدردیاں عتیق عباسی اور خلیق عباسی کے ساتھ ہیں اور امید کرتے ہیں کہ ظالم اپنے انجام کو ضرور پہنچے گا ۔۔۔۔۔۔ میں اپنے جرگوئی دوستوں، یونین کونسل کے موجودہ ممبران ضلع و تحصیل کونسل اور سابق ناظمین کے علاوہ وی سی بیروٹ اور کہو شرقی کے بڑوں سے گزارش کروں گا کہ ۔۔۔۔۔۔ ظالم کا ساتھ دینے والا بھی ظالم ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
********************************
سورة البقرة کی آیت نمبر 179-178 میں ارشاد باری تعالی ہے:يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالأُنثَى بِالأُنثَى فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاء إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ ذَلِكَ تَخْفِيفٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ فَمَنِ اعْتَدَى بَعْدَ ذَلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ oوَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَاْ أُولِيْ الأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَo تو کیا میرے بھائیو ۔۔۔۔۔ اس حکم کی رو گردانی کر سکو گے ۔۔۔۔۔۔؟
************************************
آئیے ۔۔۔ میرے ساتھ میری، مفتی عتیق عباسی اور خلیق عباسی کی ہمشیرہ کیلئے دست دعا بلند کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یا الہٰہی ہر جگہ تیری عطا کا ساتھ ہو

http://www.youpak.com/watch?v=4RhFwIB8tl0 
**********************************
14h May
ہم وقت کو برباد نہیں کرتے، وقت ہمیں برباد کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔ میں کوڑ تے نا آخیا ۔۔۔۔۔؟
****************************************
وقت کی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اہمیت ۔۔۔۔۔ سنئیے اس لنک میں
http://www.youpak.com/watch?v=HYi3oBNbx-U
**********************************
ہم روتے رہتے ہیں اور یہی رونا ہمارا مقدر بنا دیا جاتا ہے ۔۔۔۔۔ کبھی ناکامیوں پہ، کبھی زمانے پہ، کبھی تشنہ تکمیکل حسرتوں پہ، کبھی وسائل کی کمیابی پہ روتے اور بین ہی کرتے رہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ یہاں تک کہ ہم خود کو دنیا کا مظلوم ترین انسان سمجھنا شروع ہوجاتے ہیں۔۔۔۔۔ ظالم دنیا کے نشتر کا ہر رخ ہماری طرف ہوتا ہے۔ ہم کامیابی کا حق دار ہونے کی باوجود دور پھینک دیے جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔ پورا جہان ہماری تاک میں بیٹھا رہتا ہے ۔۔۔۔۔ ہم افسوس کرتے رہتے ہیں اور قدرت اسی افسوس کو ہمارا مقدر بنادیا کرتی ہے۔ ۔۔۔۔ ماضی کی خواہشات پوری نہ ہونے کا افسوس ۔۔۔۔۔ لوگوں کے رویوں کا افسوس ۔۔۔۔ بے وفائیوں پر افسوس ۔۔۔۔ یہاں تک کہ افسوس کرنا اور کچھ نہ کرنا ہمارے کردار کا لازمی حصہ بن جاتا ہے۔ ہم وقت کو اور وقت ہمیں ضائع کردیتا ہے۔
******************************
میں آج صبح ایک نفسیاتی ماہر دوست کے پاس بیٹھا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ بڑا کام کا آدمی ہے اور بڑے کام کی باتیں کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔ مجھے چائے بسکٹوں کے ساتھ پیش کی اور پھر اس نے بولنا شروع کیا ۔۔۔۔۔ اور بولتا ہی گیا ۔۔۔۔۔ وہ نان سٹاپ کہے جا رہا تھا کہ ۔۔۔۔۔ انسان جس چیز میں اپنا سب سے زیادہ وقت برباد کرتا ہے ۔۔۔۔ وہ افسوس ہے ۔۔۔۔۔ بیشتر لوگ بالخصوص ہماری خواتین اپنے اچھے برے ماضی سے باہر نہیں نکلتیں ۔۔۔ وہ یہ سوچ سوچ کے کڑھتی رہتی ہیں کہ ۔۔۔۔۔ کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ویسا نہ ہو جائے۔۔۔۔؟ ۔ ڈیل کارنیگی نے کہا تھا کہ زندگی میں سب سے اہم چیز کامیابیوں سے فائدہ اٹھانا نہیں، اپنے نقصانات سے فائدہ اٹھانا ہے۔ اور یہی وہ چیز ہے جو ایک سمجھ دار اور بے وقوف میں فرق کرتی ہے۔ اس دنیا میں صرف وہ لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو ناموافق حالات کا استقبال کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں ۔۔۔۔۔ مسٹر آئن نیش جاپان گئے تو نے وہاں جاپانی قوم کا گہرائی سے مطالعہ کیا، جس کے بعد ان کا کہنا تھا: جاپانی قوم کو سب سے زیادہ متاثر کانٹو کے عظیم زلزلے نے کیا ۔زلزلے سے اگر تعمیری ذہن پیدا ہو تو زلزلہ ایک نئی ترقی کا زینہ بن جاتا ہے۔ جب بھی آدمی کی زندگی میں کوئی ’’بربادی‘‘ کا واقعہ پیش آئے تو وہ اس کو دو امکانات کے درمیان کھڑا کردیتا ہے۔ وہ یا تو اس سے سبق لے کہ ازسرِ نو متحرک ہو کر اپنی نئی تعمیر کرتا ہے یا مایوسی اور شکایت کی غذا لے کے سرد آہیں بھرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ کشتی رانی کے مقابلوں میں امریکہ کپ نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اسے امریکہ کپ اس لئے کہا جاتا ہے کہ 138 سال تک یہ کپ امریکہ جیتتا رہا۔ 1983 میں پہلی دفعہ آسٹریلوی ٹیم نے اسے جیت کر دنیا کو حیران کردیا۔ اس سال امریکی ٹیم کی قیادت ڈینس کورنر کررہا تھا لیکن اس نے اس واقعے سے ہمت نہ ہاری۔ وہ تین سال ہارتا رہا مگر چوتھے سال یہ اعزاز دوبارہ جیتنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس کی اس جیت کا ایک اہم عامل اس کی بے اطمینانی تھی۔ یعنی یہ احساس کہ تاریخ میں یہ کپ پہلی دفعہ مجھ سے چھینا گیا ہے۔۔۔۔۔ ییل دوسری جنگِ عظیم میں فرانس کے علاقے میں جرمنی کے ہوائی جہازوں کا مقابلہ کررہا تھا۔ وہ اکیلا تھا لیکن کسی طرح لڑکھڑاتا ہوا اپنے جہاز کو بچا کے سپین کے علاقے میں لے آیا جہاں وہ محفوظ تھا۔ جنگ کے اختتا م پر فضائیہ نے اس کو رخصت پہ بھیجنے کا ارادہ کیا۔ اسے یقین تھا کہ اگر میں اب واپس چلا گیا تو شاید دوبارہ فضائیہ کو میری ضرورت نہ رہے۔ بعد ازاں ییل وہ پہلا شخص بنا جسے آواز سے زیادہ تیز طیارہ اڑانے کا اعزاز حاصل ہوا۔
*******************************
اپنی کتاب تلاشِ حق میں گاندھی جی لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ کہ میرے اندر شرمیلا پن بہت تھا۔ یہاں تک کہ کسی سے بات بھی نہ کرسکتا۔ جب وہ لندن گئے تو ویجیٹیرن سوسائٹی کے ممبربن گئے۔ ایک بار انہیں میٹنگ میں تقریر کے لیے کہا گیا۔ وہ کھڑے ہوئے مگر کچھ نہ بول سکے اور شکریہ ادا کرکے بیٹھ گئے۔ ایک اور موقع پر کاغذ پہ اپنے لکھے ہوئے خیالات کا اظہار بھی نہ کر سکے۔ وکالت کے بعد مقدمہ لڑنے گئے تو جج کے سامنے دلائل بھی پیش نہ کرسکے اور اپنے کلائنٹ سے کہا کہ آپ کوئی اور وکیل کر لے لیکن گاندھی جی لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔ یہ کمیاں بعد میں میرے لیے بڑی نعمت ثابت ہوئیں۔ میرے اند ر فطری طور پر یہ عادت پیدا ہوگئی کہ میں اپنے خیالات پر قابو رکھوں۔ اب میں اعتماد کے ساتھ کہتا ہوں کہ مشکل سے ہی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی لایعنی لفظ میری زبان یا قلم سے نکلے۔
***************************
اسلام میں وقت کی قدر و قیمت ۔۔۔۔۔۔۔۔ مطالعہ کیجئے اس لنک میں:
http://www.minhaj.org/…/%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85%DB%8…

 ***********************************
 14h May
بیروٹ کا وہ گھر ۔۔۔۔ جو ۔۔۔۔۔ ڈیڑھ صدی تک علاقے میں فیوض و برکات کا منبع رہا ۔۔۔۔۔ اس گھر کے کھولہ (کھنڈر) بننے پر بوجھل دل کے ساتھ ایک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نوحہ
************************************************
پہلے یہ پڑھ لیں: https://ur.wikipedia.org/…/%D8%B3%DB%8C%D8%AF_%D9%81%D8%B6%…
************************************************
اہلیان بیروٹ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو جانتے ہیں مگر باہر کے لوگوں کو پتہ شاید نہیں ہو گا کہ بیروٹ کے نئے پرانے راستے کدھر کدھر جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔؟ میرے محترم ذوق اختر عباسی کی دکان سے ایک راستہ سراں کہو شرقی کی جانب جاتا ہے، اسی راستے پر کھبی کھبی بیروٹ کا گرلز سکول ہوتا تھا جو اب ہماری بے حسی، سیاسی سازشوں اور تہہ در تہہ ہمارے اختلافات کی نذر ہو کر ترمٹھیاں کے دو منزلہ سکول میں منتقل ہو چکا ہے اور یہاں پرایئویٹ مہنگے سکولوں نے اس کی جگہ لے لی ہے (اس پر پھر کبھی سہی) یہاں سے نیچے جائیں تو یوٹیلیٹی سٹور ہے، با خبر ذرائع کہتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔ رمضان کی مقدس راتوں میں اللہ کے بندے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں اور یہ یوٹیلیٹی سٹور مقامی دکانداروں کو انہی مقدس راتوں میں معمول سے زیادہ سپلائی بڑھا کر ان سے کمیشن مانگتا ہے (اس پر بھی پھر کبھی سہی)، اس سے آگے قبرستان سے ملحق پہلے سکندر خان اور بعد میں شکور کا ہوٹل ہوتا تھا، کچھ عرصہ موہڑے والی سرکار نے یہاں سبزی کی دکان ڈالی اور آج کل یہ بند پڑی ہے ۔۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی ایک راستہ نشیب کی جانب اترتا ہے جو انڈر پی ایچ ڈی نظار عباسی اورپی ٹی آئی کے رہنما رفاق عباسی کے گھر کے پچھواڑے سے گزرتا ہوا چلا جاتا ہے، اس مقام کو سمے ناں کھل کہتے ہیں اور یہ فقیرال ڈھونڈ عباسی قبیلہ کے مورث اعلیٰ فقیر خان کا پہلا گھر بھی ہے ۔۔۔۔۔ اس راستے کے آگے دو شاخیں ہو جاتی ہیں، ایک ڈاکٹر الیاس شاہ کے گھر کی طرف جاتی ہے اور ایک نیچے ۔۔۔۔۔ نیچے والے راستہ پر پہلا گھر ایک کھولا (کھنڈر) ہے ۔۔۔۔۔۔ اور یہی کھولا کئی ایک بیروٹیوں کی گزشتہ ڈیڑھ صدی سے تعلیم و تربیت، دینی، روحانی برکتوں کا مرکز دل و نگاہ بھی رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
****************************************
میری والدہ مرحومہ کے تمام آبا و اجداد یہاں ہی آج کے اس کھولے میں پیدا ہوئے، ان کے جد امجد حضرت جیون شاہؒ جب راہی سرکل لورا سے ہجرت کر کے بیروٹ آئے تو ان کے ساتھ اس وقت کے ایک بزرگ للی خان سے ایک معاہدہ ہوا تھا کہ وہ بیروٹ کی پہلی مسجد کے تمام تر دینی و مذہبی معاملات کے ذمہ دار ہوں گے اور للی خان کا خاندان ان کی جان، مال عزت و آبرو اور زندگی بسر کرنے کے دیگر اسباب اور ذرائع کا ذمہ دار ہو گا، والدہ مرحومہ کے والد اور تین نسلوں کے استاد سید فضل حسین شاہؒ اور آخر میں ممتاز شاہ تک بڑوں کا بڑوں سے کیا گیا یہ عہد و پیمان وفا ہوتا رہا ۔۔۔۔۔۔ مسجد آباد رہی، ان کے بغیر اب بھی آباد ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر حالات اس نہج پر پہنچے کہ ۔۔۔۔۔۔ نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی، نہ وہ خم ہے زلف ایاز میں ۔۔۔۔۔۔؟
**************************************
6 پشتوں تک عباسیوں کی خدمت کرنے والے خاندان کے اس گھر کے آخری مکین ہائی سکول بیروٹ کے ٹیچر اور سرکل بکوٹ کے معروف شاعر سید اقبال حسین شاہ مخلص بیروٹوی تھے ۔۔۔۔۔۔ اس گھر میں انہوں نے بڑے صدمے سہے ۔۔۔۔۔ اور یہی Odds ان کی شاعری میں سوز و غم کا اظہار بھی بن گئے ۔۔۔۔۔۔ 2000 میں ان کی اہلیہ داعی اجل کو لبیک کہہ گئیں، ان کی تدفین بھی مانسہرہ ہوئی ۔۔۔۔۔۔ یہ گویا ان کی بیروٹ سے لاتعلقی کا پہلا پتھر تھا ۔۔۔۔ چالیسواں کروایا اور ان کا گھرانہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے مانسہرہ شفٹ ہو گیا۔
**************************************
یہ ابھی پتھروں، چھت، تلن اور کُھن سمیت تین کمروں اور دو سرنیوں والا سلامت گھر تھا کہ 2005 کے زلزلہ نے یو سی بیروٹ کو تہس نہس کر ڈالا مگر یہ گھر محفوظ رہا ۔۔۔۔۔۔ اس گھر کی بھی بوگس فائیلیں بنیں ۔۔۔۔۔۔ مکینوں سمیت اس گھر کی زمین کے کلیم پر لاکھوں کی امداد دونوں کے اکائونٹس میں منتقل ہوئی اور ۔۔۔۔ پھر ۔۔۔۔۔ مکینوں نے مطالبہ پر ڈیڑھ سو برس بعد اراضی اس مکان سمیت اصل ماکان کے حوالے کر دی ۔۔۔۔۔ مالکان نے کاٹھ وغیرہ مکینوں کو لوٹانے کی پیشکش کی اور پھر اس کی چھتیں اکھڑیں، سرنی کو ادھیڑا گیا، گھر کے سامنے داخ (انگور کی بیل) اور ایک کہن سالا بوڑھا توت کا درخت جڑوں سے نکالا کر نیلام کر دیا گیا، گھر کے دروازے، کھڑکیاں، بالے اور کڑیاں (شہتیر) وغیرہ ڈاکٹر الیاس شاہ نے خریدے اور اس کے بعد دیواریں بھی مسمار کر کے مکین مانسہرہ لوٹ گئے ۔۔۔۔ اور یہ گھر اب کھولے کی صورت میں ۔۔۔۔۔ جینی قوور بھی نہیں رہا ۔۔۔۔۔ ایک کھولا ہے ۔۔۔۔۔ جہاں شاید اب وہاں کوئی شب روشن نہیں ہو گی نہ کسی انسان کا ہی یہاں بسیرا ہو گا ۔۔۔۔؟ ۔۔۔۔۔ یہ ماضی کا ایک مزار ہے ؎
بر مزارے ما غریباں، نے چراغ و نے گُلے
نے پر پروانہ سوزد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نے صدائے بلبلے
************************************
اس گھر سے والدہ محترمہ سمیت پانچ بہنوں کی ڈولی اٹھی تھی اور چھ بھائیوں کی دلہنیں آئی تھیں ۔۔۔۔۔ میری زندگی کا بچپن اور لڑکپن بھی اسی گھر کی چھت کے نیچے ماجی ہوراں (نانی اماں) کی گود میں گزرا تھا ۔۔۔۔۔ بہت ہی حسین تھے وہ شام و سحر ۔۔۔۔۔ ممتاز شاہ کی گالیاں بھی اسی گھر میں گونجا کرتی تھیں اور اقبال شاہ کی زندہ شاعری بھی اسی گھر کی چھت کے نیچے بلندی افکار چاہتی تھی ۔۔۔۔۔ ان کے بڑے بھائی سید مظفر حسین شاہؒ نے بھی یہاں ہی اپنے والد بزرگوار سید فضل حسین شاہؒ کی صحبت میں سلوک کی منازل طے کیں ۔۔۔۔۔۔ علمی اور دینی محافل بھی اسی گھر میں ہوتی رہیں ۔۔۔۔۔ اقور قال اللہ و قال الرسولﷺ کے زمزمے بھی اسی گھر میں بہتے رہے ۔۔۔۔۔۔۔ میں نے بھی اسی گھر میں قلم پکڑنا سیکھا اور اسی گھر میں شعور کی آنکھ کھولی ۔۔۔۔۔ یہی گھر دینی اور دنیاوی علوم، تصوف اور اسوہ محمدیﷺ کا میرے نانا نانی کی صورت میں ایک قرار اور سکون کا گہوارہ تھا اور جسمانی و روحانی پیاسوں اور مریضوں کا شفا خانہ بھی تھا ۔۔۔۔۔ اسی کھولے کے آخری مکین اور شاعرسید اقبال حسین شاہ مخلص بیروٹوی ان دنوں مانسہرہ میں اپنی تیسری کتاب کی ترتیب کے آخری مراحل میں ہیں ۔۔۔۔ مگر ۔۔۔۔ وہ اپنی شدید علالت کی وجہ سے اب سفر کے قابل بھی نہیں رہے ۔۔۔۔۔۔۔ دعا کیجئے ۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ انہیں صحت عطا فرمائے ۔۔۔۔۔ آمین
*******************************************
آئیے ۔۔۔۔۔۔۔ اقبال شاہ صاحب کی صحت کیلئے دعا کریں: http://www.youpak.com/watch?v=EkCYWdBZTHk
*******************************************
مزید تفصیلات اس لنک میں: http://sfhteacher.blogspot.com/ 


******************************************
18th May
 تاریخ کے جھروکوں سے ۔۔۔۔۔۔۔ جب حضرت بابا رتن خانؒ نے بٹناڑہ باسیاں (یو سی بیروٹ) میں پہلی صدائے اللہ اکبر بلند کی
********************************************

موشپوری کی چوٹی پر جائیں تو ایک جگہ کا نام ہے ۔۔۔۔۔۔ سمناٹ ۔۔۔۔۔ در اصل یہ قدیم کیٹھوالی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنی ایسی جگہ کے ہیں جہاں کچھ نہ اگتا ہو ۔۔۔۔۔ آج بھی کوئی پھلدار درخت پھل نہ دیتا ہو تو ہم اسے سمناں کہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ ہندوئوں کی مقدس کتاب مہا بھارت میں اس مقام کا ذکر ہے جہاں سے ایک سوم رس بوٹی ہندو مت کے اوتار کرشن جی مہاراج کی بہن یا بیوی سیتا دیوی کے علاج کیلئے ان کا چیلا ہنو مان لے گیا تھا، اسی جگہ پر 3000 قبل مسیح سے570عیسوی تک شیو دیوتا کا مندر بھی تھا اور وی سی باسیاں کے اینڈ پر دومیل کے مقام سے دریائے جہلم عبور کر کے آنے والے یاتری اور بدھا یونیورسٹی ٹیکسلا کے سٹوڈنٹ اسی سمناٹ پر مندر میں ماتھا ٹیکتے اور پھر اپنی راہ لیتے، موشپوری کی اس سمناٹ پر لوگ نتھیا گلی سے جاتے ہیں، سمناٹ پر مندر کی تصدیق اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔ نتھیا گلی کا لفظ ناتھ سے ماخوذ ہے اور ۔۔۔۔۔ ناتھ ہندو مت میں مذہبی پیشوا یا پیر کو کہتے ہیں ۔۔۔۔ جیسے کشمیر میں امر ناتھ ، نوبل انعام یافتہ اور بھارتی قومی ترانے بندے ماترم کا خالق رابندر ناتھ ٹیگور ۔۔۔۔۔ یہ نتھیا گلی بھی ہندوئوں کیلئے اتنی پوتر (مقدس) ہے کہ 1955 میں بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے یہاں سیتا دیوی کے خدمت گار ہنومان کی یاد میں نتھیا گلی میں بنارسی بندر چھوڑے تھے ۔۔۔۔۔۔ یہ بات تحصیل کونسل کے رکن قاضی سجاول ہی بتا سکتے ہیں کہ ۔۔۔۔ سمناٹ یو سی بیروٹ کی حدود میں ہے یا نتھیا گلی میں ۔۔۔۔۔۔۔؟
********************************
بیروٹ سے اوپر اوپر ۔۔۔۔۔۔ سمناٹ سے پار دیکھیں تو ہمیں چمن کوٹ کا جنگل نظر آتا ہے، اس کے جنوب میں چمبیاٹ ہے، چمبیاٹ یا چمبیاٹی چمبہ سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی ۔۔۔۔۔ چنبیلی کا پھول ۔۔۔۔۔۔ چمبے دی بوٹی ۔۔۔۔۔۔ پربت کے بیچ میں چمبے کا گائوں ۔۔۔۔۔ اور چڑیاں ناں چمبہ یا جھنڈ کو بھی کہتے ہیں، اس چمبیاٹی کی شہرت دو باتوں سے ہے ۔۔۔۔۔ اول یہاں پرکشمیر لبریشن لیگ کے رہنما معروف اختر خان رہتے ہیں، دوم ان کے دادا اکرم خان جو ڈوگرہ کشمیر کی سپرم کورٹ کے چیف جسٹس تھے اور ڈھونڈ عباسیوں کی پہلی تاریخ آئینہ قریش (1905) کے محقق اور مصنف بھی تھے، سوم ان کے بیٹے سردار ایوب خان ڈوگرہ کشمیر کے پہلے ڈی ایس پی تھے اور انہیں کشمیر کا بابائے پولیس بھی کہا جاتا ہے (اس پر پھر کبھی سہی) یہاں سے تھوڑا سا شمال میں جائیں تو وہاں دو عظیم ہستیاں ابدی نیند سو رہی ہیں ان میں سے ایک حضرت سردار رتن خانؒ اور دوسرے حضرت سردار چندن خانؒ ہیں ۔۔۔۔۔۔ سرکل بکوٹ کے تمام ڈھونڈ عباسی حضرت سردار رتن خانؒ کی اولاد سے ہیں اور رتنال جبکہ آزاد کشمیر بھر میں ڈھونڈ عباسی حضرت سردار چندن خانؒ کی اولاد کی حیثیت سے چندال کہلاتے ہیں ۔۔۔۔۔ سابق گورنر اور وزیر اعلیٰ کے پی کے سردار مہتاب احمد خان کی والدہ ماجدہ کا تعلق بھی یو سی بیروٹ کی وی سی بانڈی جلیال کے چندال قبیلہ سے ہے
********************************
دونوں بھائی مزے سے اپنے اپنے گھروں میں رہ رہے تھے ۔۔۔۔ مال مویشی، اناج کے کوٹھار جبکہ ایندھن اور عمارتی لکڑی کیلئے جنگلات موجود تھے اور ملال بگلہ سے ڈولی چیڑھ تک وسیع قطعہ اراضی ان کے پاس تھا، مزارعین سمیت نوکر چاکر بھی کافی تعداد میں تھے ۔۔۔۔۔۔ لیکن اچانک ان کے کھیتوں میں موجود ناڑے کا پانی حضرت سردار رتن خانؒ کی باڑیوں میں جانے لگا ۔۔۔۔۔ جس سے لینڈ سلائیڈ ہو گئی ۔۔۔۔۔ بشری کمزوری کی وجہ سے دونوں میں غلط فہمی پیدا ہوئی اور دونوں نے رات کو پہرہ دینے کا فیصلہ کیا ۔۔۔۔۔۔ نصف رات بیت چکی تھی کے اس ناڑے پر ایک بزرگ نظر آئے ۔۔۔۔ دونوں اس وقت کے روائتی اسلحہ سے بھی لیس تھے ، اس شخص کو پکڑنے کیلئے دونوں آگے بڑھے تو اس بزرگ نے حضرت سردار رتن خانؒؒ کی کلائی پکڑ لی اور کہا کہ:
۔۔۔۔ اب چمبیاٹی سے تمہارا رزق ختم ہو چکا ہے، اپنے بیلوں کا جونٹ لو ۔۔۔۔ اس پر دیہلی جلائو اور اُتر (مغرب) کی طرف چل پڑو، جہاں یہ دیہلی بجھ جائے وہی تمہاری جائے سکونت اور علاقہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اب پیچھے مڑکر نہیں دیکھنا ۔۔۔۔۔ اور پھر حضرت سردار رتن خانؒ نے اس جونٹ پر دیہلی جلائی اور نا معلوم منزل کی طرف گپ کالواخ میں چل پڑے ۔۔۔۔
*********************************
اترائی میں چلتے چلتے دریا جہلم عبور کیا اور اوپراوپر چڑھنے لگے اور پھرایک جگہ ان کے جونٹ پر بندھی ہوئی دیہلی بجھ گئی اور کالا کالواخ پھر چھا گیا ۔۔۔۔۔۔ تھوڑے آرام کے بعد کیٹھولوں کے دیس کے اس مقام پر انہوں نے ایک چپٹی چٹان کو نماز تراڑ بنایا اور اس کوہسار میں فجر کی پہلی اذان دی ۔۔۔۔۔ یہ مقام وی سی باسیاں کا بٹ ناڑہ تھا ۔۔۔۔۔
*********************************
راقم الحروف کا بھی اسی بٹ ناڑہ کے ساتھ ملحق مقام نڑھ سے بھی کچھ کچھ تعلق ہے ۔۔۔۔۔ یہاں میرے پھوپھا مولانا عبدالرحیم قریشی رہتے تھے، جو بعد میں نکر موجوال (بیروٹ خورد) چلے گئے اور 1977 میں وہاں وفات پائی ۔۔۔۔۔ اسی گھرانے میں میری والدہ محترمہ کی پھوپھی اور مولوی مخدوم قریشی مرحوم کی والدہ بھی رہتی تھیں ۔۔۔۔۔ اس لئے اس بٹ ناڑہ سے گزر کر ان کے گھر جانا ہوتا تھا ۔۔۔۔۔ اس بٹ ناڑہ میں ایک گھر ہے جس پر کروں (شہتوت) کا بہت پرانا ایک بڑا درخت چھائوں کئے ہوئے ہے ۔۔۔۔۔ ایک بڑا سے دالان بھی ہے اور اس کے ساتھ ملحق ناڑہ بھی ۔۔۔۔۔ بڑی کوشش کی مگر کسی کو معلوم نہیں کہ یہ ناڑہ کس نے کب بنایا، وہ کروں کی چھائوں میں وسیع جگہ کس نے تعمیر کی ۔۔۔۔۔؟ اس لئے میرا ذاتی خیال ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔ یہ حضرت سردار رتن خانؒ کا تکیہ تھا، جو کشمیریوں کی گزر گاہ اور قیام گاہ بھی تھا اور وہ اس مقام پرمسافر ڈھونڈ عباسی برادری کے مورث اعلیٰ حضرت سردار رتن خانؒ کی مہمان نوازی کا لطف بھی اٹھاتے تھے ۔۔۔۔۔۔
********************************
حضر ت سردار رتن خانؒ تو باسیاں میں بس گئے ۔۔۔۔۔۔ حضرت چندن خانؒ چمبیاٹی میں ہی قیام پذیر رہے ۔۔۔۔۔ اس خانوادے میں ایک روایت یہ تھی کہ وہ کوئی ذبیحہ بھی کرتے تو سری اپنے خادمین کو دیتے ۔۔۔۔۔۔ اس بار ایسا نہ ہو سکا اور رات کو ان خادمین نے انتقاماً ان کے گھر کو نذر آتش کر دیا ۔۔۔۔ اہلخانہ تو بچ گئے مگر سارا مال و اسباب خاکستر ہو گیا ۔۔۔۔۔ گھر دوبارہ تعمیر کیا گیا ۔۔۔۔۔ حضرت چندن خانؒ کی وفات وہاں ہی ہوئی اور اسی گھر کے ایک کمرے میں انہیں سپرد خاک کیا گیا، چند سال بعد حضرت رتن خانؒ بھی داعی اجل کو لبیک کہہ گئے اور ان کی وصیت کے مطابق ان کی آخری آرام گاہ بھی اپنے بھائی کے پہلو میں بنائی گئی ۔۔۔۔۔۔ یہ مقام آج کل زیارت گاہ خاص و عام ہے۔ پہلے پہل یہاں سے گزنے والے گھوڑے سے اتر جاتے اوعر دعئے مغفرت کر کے ہی آگے بڑھتے تھے۔
*******************************
راوی:محمداقبال عباسی ۔۔۔۔ براد خورد معروف اختر خان عباسی چمبیاٹی ۔۔۔۔۔ آزاد کشمیر
*******************************
شب برات آ رہی ہے ۔۔۔۔۔ اس رات لوگ اپنے پُرکھوں اور پیاروں کی آخری آرام گاہوں پر جا کر دعائیں کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ کیا میرے عباسی بھائی بھی اپنے مورث اعلیٰ کی آخری آرام گاہوں پر جا کر ان کے درجات کی بلندی اور مغفرت کی دعا مانگیں گے ۔۔۔۔۔۔؟ یہ بزرگوں کا آپ پر قرض ہے ۔۔۔۔۔ اور اس قرض کو فرض سمجھ کر نبھائیے ۔۔۔۔ کل میں اور آپ بھی کسی کے بزرگ ہوں گے ۔۔۔۔ ان کو پردہ فرمائے لگ بھگ ساڑھے چھ صدیاں گزری ہیں ۔۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔۔ ٹائم گزرتے کچھ پتہ نہیں چلتا ۔۔۔۔۔ کہ کب ہم بھی خاک نشین بن جائیں ۔۔۔۔۔؟
******************************
آئیے ۔۔۔۔۔۔ ان دونوں بزرگوں کی مغفرت اور قبر کی منزلیں آسان بنانے کیلئے بارگاہ رب العزت میں دعا کیلئے ہاتھ اٹھائیں:http://www.youpak.com/watch?v=EampAAC63RU
*******************************************
میرے کچھ دوستوں نے عباسی برادری کے شجرے ارسال کئے ہیں، وہ بھی شکرئیے کے ساتھ پیش کر رہا ہوں، بیروٹ کے عباسی دوستوں سے گزارش ہے کہ وہ اپنے شجرے نعیم عباسی کی کتاب ۔۔۔۔ جنت سے عروج عباسیہ ۔۔۔۔۔ میں دیکھیں ۔۔۔۔۔ ککمنگ سے بھی میرے ایک عباسی دوست نے بھی انگریزی زبان میں اپنا شجرہ ارسال کیا ہے اس کی تفصیلات اس لنک میں
 
دیکھئے:http://www.kukmang.com/#!familytree/c24o8
****************************
20th May
اچھے دور کے اچھے لوگ ۔۔۔ ان کی محبتیں اور خلوص ہمیشہ دلوں کو اپنی یادوں سے آباد رکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔؟
********************************
ہم اہلیان یو سی بیروٹ جن کی عمریں اس وقت 40 سے 80 سالوں کے درمیان ہیں ان کو یہ بتانا کہ بیروٹ کی ایک معروف سماجی شخصیت عمر دین عرف عامری باوا کون تھے ۔۔۔۔۔؟ محض یاد دہانی ہو گی، سات یا دس سال کی عمر کے بچوں کے لئے ان کا نام ہی کافی تھا اور شوخ سے شوخ بچہ ان کا نام سنتے ہی شرارتوں سے توبہ کر کے اپنی ماں کی گود میں یوں دبک جاتا تھا ۔۔۔۔۔ جیسے اسے سانپ سونگھ گیا ہو ۔۔۔۔۔ عامری باوا کے جاب کی رینج بکوٹ سے لیکر اوسیا تک تھی ۔۔۔۔ بیروٹ خورد اور آزاد کشمیر میں بھی اگر ان کے سپیشلائزڈ سروس کی ضرورت پڑتی تو وہ وہاں بھی چلے جاتے ۔۔۔۔ ان کے مخصوص جاب کی فیس کوئی اتنی زیادہ بھی نہیں تھی لیکن پھر بھی بعض سفید پوش خاندان وہ بھی ادا نہیں کر سکتے تھے ۔۔۔۔ اس کے باوجود ۔۔۔۔ عامری باوا ناراض نہیں ہوتے تھے ۔۔۔۔۔ اور اپنا کام جس میں تقریباً آدھا گھنٹہ صرف ہوتا، چائے، لسی کا گلاس یا پھر جو بھی اہلخانہ خدمت کرتے قبول کرتے اور اظہار تشکر کے ساتھ صرف ایک ڈیمانڈ کرتے ۔۔۔۔ مہاڑے تائیں دعا کرنے ریہا ۔۔۔ کہہ پتا ۔۔۔۔ کدوں پھوک نکلی غیسی ۔۔۔ اور پھر اگر کوئی بکنگ ہوتی تو اس گھر کی طرف چل پڑتے ۔۔۔۔ یا لمیاں لڑاں یا تہمن بیروٹ میں اپنے گھر چلے جاتے ۔۔۔۔ اہل خانہ یا اس ٹبر (Family) کا کوئی بڈیرا (Elder)انہیں 40قدم تک ساتھ چل کر رخصت کرتا اور ممنون بھی ہوتا ۔۔۔۔۔ یہ ہمارے سنہرے تمدن کی ایک روایت بھی تھی۔
****************************
عامری باوا کے پُرکھے (Ancestors) کب بیروٹ آئے تھے اور کہاں سے ۔۔۔۔؟ میرے پاس کوئی معلومات نہیں ہیں، ہاں اتنا ضرور ہے کہ اس دور میں ان کا اہلیان بیروٹ کے ساتھ ایک معاہدہ عمرانی (Social contract) ضرور تھا، ہر عہد کے ہر سماج کی طرح بیروٹ میں بھی تین طبقات تھے، اولاً ۔۔۔۔ فیوڈل کلاس ۔۔۔ انہیں آپ جاگیر دار یا زمیندار کہہ سکتے ہیں ۔۔۔۔ وسیع قطعہ اراضیات ان کی قوت تھے اور زمین کا یہی رشتہ ان کے اندرونی اور بیرونی قوت کا بھی مظہر تھا، اور یہی طبقہ اس گائوں کے تمام معاملات کا ذمہ دار بھی تھا اور دیگر دو طبقات کی جان، مال، عزت و آبرو سمیت ان کی زندگی سے تعلق رکھنے والے وسائل کی فراہمی کا ذمہ دار بھی ۔۔۔۔! اس سماج میں دوسرا طبقہ لیڈنگ کلاس کا تھا ۔۔۔۔ یہ لوگ سکھ عہد سے قبل بھی موجود ہوئے ہوں گے مگر ۔۔۔۔ بیروٹ کی لیڈنگ کلاس کے زیادہ تر خاندان 1825-45کے درمیان فیوڈل کلاس کی دعوت پر دینی اور طبی ضروریات کے حوالے سےیہاں آئے ۔۔۔ انہیں جان، مال، عزت و آبرو اور زندگی باوقار انداز سے گزارنے کیلئے وسائل کی ضمانت دی گئی ۔۔۔۔ انہوں نے بھی جو وعدہ کیا ۔۔۔ آخیر تک نبھاہنے کی سعی کرتے رہے اور کبھی بھی فیوڈل کلاس سمیت علاقے کے کسی شخص کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائی ۔۔۔۔ یہی وجہ تھی کہ ۔۔۔۔ ان کے احترام میں بھی کوئی کمی نہیں ہوئی ۔۔۔۔ انہیں ہمیشہ خود ان کے سرپرست سراندی (چارپائی کے سر والا حصہ) بٹھایا ۔۔۔۔ اس طبقہ کی خواتین نے بھی ان سے کبھی پردہ نہیں کیا کیونکہ ۔۔۔۔ وہ ان خواتین کو بہن بیٹی کا درجہ دیتے اور قرآنی تعلیمات سے سرفراز کرتے، مسجد، مکتب، شادی غمی کے دینی معاملات، بچے کی پیدائش پر اس کے کان میں اذان، نام رکھنا، ساتویں دن اس نومولود کیلئے انہی کے کہنے پر عامری باوا کی اہل خانہ خدمات حاصل کرتے ۔۔۔۔ اس علاقے میں تیسری کلاس ورکنگ کلاس تھی اور گائوں بھر کے ہر آدمی کے اجتماعی معاملات ۔۔۔۔ جیسے جینی قوور یعنی پہچھی، لیتری (اجتماعی گھاس کٹائی) شادی اور غمی کے انتظامات، موسم بہار میں مکئی کی کاشت، اس کے لئے ہل پیل کی چنڈائی، جوتا سازی، جندروں کو رواں دواں رکھنے کیلئے 24 گھنٹے آن ڈیوٹی رہنا، مکان اور قوور کی تعمیر، بہترین نقش و نگار کی حامل دروازوں اور کھڑکیوں کی بناوٹ کے علاوہ برتن سازی اور اجتماعی تقریبات میں روٹی پکوائی اسی کلاس کے ذمہ تھی اور وہ اپنی اپنی ڈیوٹی بڑی خوش اسلوبی سے سر انجام دیتے تھے، عامری باوا کا تعلق بھی اسی کلاس سے تھا اور ان کی ڈیوٹیاں کثیرالجہتی (Dimensional) تھیں۔
*****************************
عامری باوا کی مجھے تھوڑی تھوڑی یاد ہے ۔۔۔۔ پانچ فٹ کے بوڑھے آدمی تھے، اگر ہمارے قریب کسی گھر میں آتے تو ہمارے گھر بھی ضرور آتے، والد صاحب کے ساتھ صحن میں بچھی چارپائی پر بیٹھ کر گھنٹوں باتیں کرتے رہتے مگر میری جان نکل جاتی اور ایسے محسوس ہوتا کہ جان میں جان ہی نہیں، باہر ہوتا تو ان کی موجودگی میں باہر ہی رہتا ۔۔۔۔ انہوں نے ایک ویسٹ کوٹ بھی پہنا ہوتا اور ان کی ساری دکان ان کے اسی ویسٹ کوٹ میں ہوتی ۔۔۔۔ والد صاحب کی حجامت کرتے ۔۔۔ اگر میں پکڑا جاتا تو ۔۔۔۔ بال ہوں یا نہ ہوں ان کا استرا ٹنڈ ضرور کرتا ۔۔۔۔ ان کی کچھ اور ڈیوٹیاں بھی تھیں ۔۔۔ کسی بھی گھر میں لڑکی یا لڑکے کی شادی ہوتی تو ایل خانہ کی منظور شدہ فہرست کے مطابق پہاژی (Wedding invitation) چھواروں اور پتاشوں کی صورت میں مدعوئین تک پہنچاتے، ویسے کسی کے گھر کی طرف انہیں جاتے دیکھ کر ہی گھر والے اندازہ لگا لیتے تھے کہ کسی کی شادی کے چھوارے اور پتاشے آ رہے ہیں، انہیں نہائت عزت سے بٹھایا جاتا، چائے، پانی یا دودھ سے ان کی تواضح کی جاتی اور پھر وہ دعا سلام کر کے اگلے گھر کی طرف چل پڑتے، عامری بابا اپنی جس خدمت کی وجہ سے بچوں میں غیر مقبول تھے اتنے ہی بچی بچے کی شادی سے قبل والدین میں مقبول تھے ۔۔۔۔ اور وہ ایک اور سپیشلائزڈ سروس کی وجہ سے ان کی آنکھ کا تارہ تھے ۔۔۔۔ اگر کسی دوسرے گائوں سے بچی یا بچے کا رشتہ آتا تو والدین کی ہاں یا ناں کا دارومدار ۔۔۔۔ عامری باوا کی اس سیکرٹ انفارمیشن پر ہوتا تھا ۔۔۔۔ جس میں رشتہ مانگنے والوں کی سماجی حیثیت، پراپرٹی اور دیگر مالی وسائل، سوشل سٹیٹس، برادری کا حجم سمیت اہل خانہ کے کچھ سپیشل سوالات کے مستند جوابات ہوتے تھے، نمبردار حضرات بھی تمام سیکرٹ سروس کیلئے انہی کی انفارمیشن پر انحصار کرتے تھے ۔۔۔۔ اس عہد میں کسی ڈکیت یا لٹیرے کا کھرا تلاش کرنا ہوتا تو بھی عامری باوا اسے اپنی ماہرانہ دانش کی بدولت 24 گھنٹوں میں اس کے گریبان تک پہنچ جاتے یہی وجہ ہے کہ دور کوئی بھی ہو جب تک زندہ رہے، کسی لٹیرے کو بیروٹ میں نقب زنی کی جرات نہ ہو سکی ۔۔۔۔ اب جو شاہراہ کشمیر پر عید الفطر کے قریب ڈاکے پڑتے ہیں یہ لٹیرے ان کی وفات کے بعد کی پیداوار ہیں ۔۔۔۔ اور ان کے ہماری طرح مسلمانی سے مسلمان کردہ نہیں ہیں۔
****************************
انگلیوں پر گنی جانے والی چھوٹی سی برادری سے تعلق رکھتے تھے، ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے طالب حسین نے ان کی جانشینی سنبھالی، ناولی میں رہنے والے طالب حسین نے بیروٹ ڈاخانہ کے ساتھ دکان شروع کی، یہ دکان اس وجہ سے تاریخی اہمیت کی حامل ہے کہ ۔۔۔۔ یہ بیروٹ کی پہلی مسلمان دکان ہے، اسے حاجی قلندر خان نے شروع کیا، لوگ ان کو کھوٹے سکے دیکر بھی سودا لے لیتے تھے مگر ان کی پیشانی پر کبھی ُکرہنجھ (شکن) نہیں پڑی اور اللہ تعالیٰ نے ان کی ساری اولاد کو بہت زیادہ نوازا بھی، ان کے بعد یہ دکان کئی عشروں تک کرم الہی خان کے پاس رہی، وہ لوہے کے اوزار بنایا کرتے تھے، اس کے بعد طالب حسین نے اسے باربر شاپ میں تبدیل کیا، نہایت پرہیز گار آدمی تھا، اس نے کبھی کسی کی شیو نہیں کی کیونکہ وہ سنت رسول ﷺ پر اپنی قینچی یا استرا چلانا گناہ کبیرہ سمجھتا تھا ۔۔۔ اس کے بعد یہ دکان آج کل کالا خان کے بیٹے کے پاس ہے، اس نے بلدیاتی الیکشن میں جنرل کونسلر کے امیدوار کی حیثیت سے حصہ بھی لیا تھا اور بیروٹ میں زعفران کی کاشت کا نعرہ لگایا تھا۔
****************************
اچھے دور کے اچھے لوگ، ان کی محبتیں اور خلوص ہمیشہ یاد رہتا ہے ۔۔۔۔ عامری باوا بھی ان اچھے انسانوں میں شامل تھے جو وعدہ خلافی کو پاپ سمجھتے، غریب گھر کی کھال اتارنے کے خلاف تھے ۔۔۔۔ وہ کھال ضرور اتارتے تھے ۔۔۔۔ کیونکہ یہی سنت ابراہیمی تھی ۔۔۔۔۔ وہ ہم سب کے محسن اور پردہ دار بھی تھے ۔۔۔۔ اس شب برات کے موقع پر جہاں میں اور آپ اپنے والدین، بزرگوں اور عزیز و اقارب کیلئے بارگاہ ایزدی میں دست دعا بلند کریں گے وہاں ہی ان کیلئے بھی دعا کیجئے کہ ۔۔۔۔ اللہ تعالی ان کی مغفرت کرے، قبر کی منزلیں آسان کرے اور ان کی آخری آرام گاہ کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنائے ۔۔۔۔ آمین یا رب العالمین

http://www.youpak.com/watch?v=pP3vhMUnRMg
*******************************
مزید تفصیلات اس لنک میں:http://wedcus.blogspot.com/ اور http://circlebirote.blogspot.com/ 
اقتصادیات